قسم الحديث (القائل): قدسی ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (قَوْلِ اللَّهِ: {وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا} [البقرة: 31])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4476. حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح و قَالَ لِي خَلِيفَةُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَجْتَمِعُ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُونَ لَوْ اسْتَشْفَعْنَا إِلَى رَبِّنَا فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ أَنْتَ أَبُو النَّاسِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ وَعَلَّمَكَ أَسْمَاءَ كُلِّ شَيْءٍ فَاشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّكَ حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا فَيَقُولُ لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ ذَنْبَهُ فَيَسْتَحِي ائْتُوا نُوحًا فَإِنَّهُ أَوَّلُ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ سُؤَالَهُ رَبَّهُ مَا لَيْسَ لَهُ بِهِ عِلْمٌ فَيَسْتَحِي فَيَقُولُ ائْتُوا خَلِيلَ الرَّحْمَنِ فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ لَسْتُ هُنَاكُمْ ائْتُوا مُوسَى عَبْدًا كَلَّمَهُ اللَّهُ وَأَعْطَاهُ التَّوْرَاةَ فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ قَتْلَ النَّفْسِ بِغَيْرِ نَفْسٍ فَيَسْتَحِي مِنْ رَبِّهِ فَيَقُولُ ائْتُوا عِيسَى عَبْدَ اللَّهِ وَرَسُولَهُ وَكَلِمَةَ اللَّهِ وَرُوحَهُ فَيَقُولُ لَسْتُ هُنَاكُمْ ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدًا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ فَيَأْتُونِي فَأَنْطَلِقُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ عَلَى رَبِّي فَيُؤْذَنَ لِي فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ سَاجِدًا فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يُقَالُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَسَلْ تُعْطَهْ وَقُلْ يُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَحْمَدُهُ بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُدْخِلُهُمْ الْجَنَّةَ ثُمَّ أَعُودُ إِلَيْهِ فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي مِثْلَهُ ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُدْخِلُهُمْ الْجَنَّةَ ثُمَّ أَعُودُ الرَّابِعَةَ فَأَقُولُ مَا بَقِيَ فِي النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ وَوَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ يَعْنِي قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى خَالِدِينَ فِيهَا

مترجم:

4476.

حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن سب لوگ جمع ہو کر مشورہ کریں گے کہ آج ہم اپنے پروردگار کے حضور کسی کو سفارش بنائیں، چنانچہ وہ حضرت آدم ؑ کے پاس آ کر عرض کریں گے: آپ لوگوں کے باپ ہیں اور اللہ تعالٰی نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور تمام فرشتوں سے سجدہ کروایا، نیز آپ کو تمام نام سکھائے، لہذا آپ اپنے پروردگار کے حضور ہماری سفارش کریں کہ وہ ہمیں اس (تکلیف دہ) جگہ سے (نکال کر) راحت و آرام دے۔ وہ کہیں گے: آج میں اس قابل نہیں ہوں اور وہ اپنا گناہ یاد کر کے اللہ سے شرمائیں گے اور کہیں گے: تم حضرت نوح ؑ کے پاس چلے جاؤ۔ انہیں اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے رسول بنا کر اہل زمین کی طرف بھیجا تھا۔ سب لوگ ان کے پاس آئیں گے تو وہ جواب دیں گے کہ آج میں اس قابل نہیں ہوں۔ وہ بھی اپنا گناہ یاد کر کے شرمائیں گے کہ انہوں نے اپنے رب سے ایک ایسا سوال کیا تھا جس کے متعلق انہیں کوئی علم نہ تھا۔ پھر وہ کہیں گے: تم سب خلیل الرحمٰن (ابراہیمؑ) کے پاس جاؤ۔ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے لیکن وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں۔ تم سب حضرت موسٰی ؑ کے پاس جاؤ۔ ان سے اللہ تعالٰی نے کلام فرمایا تھا اور انہیں تورات عطا فرمائی تھی۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن وہ عذر کر دیں گے کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں۔ انہیں ایک شخص کا قتل ناحق یاد آئے گا اور انہیں اپنے رب کے حضور جاتے ہوئے شرم دامن گیر ہو گی۔ وہ کہیں گے: تم حضرت عیسٰی ؑ کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے بندے، اس کے رسول، نیز اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔ حضرت عیسٰی ؑ بھی یہی کہیں گے: مجھ میں اس کی ہمت نہیں۔ تم سب حضرت محمد ﷺ کے پاس جاؤ وہ اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں، چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت مل جائے گی۔ پھر میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدہ ریز ہو جاؤں گا اور جب تک اللہ چاہے گا میں سجدے میں رہوں گا۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا: اپنا سر اٹھاؤ اور جو چاہو مانگو۔ تمہیں دیا جائے گا۔ جو چاہو کہو۔ تمہاری بات سنی جائے گی۔ سفارش کرو، تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ اس وقت میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور جیسے اللہ تعالٰی نے مجھے تعلیم دی ہو گی ویسے ہی اس کی حمد و ثنا بجا لاؤں گا۔ پھر میں سفارش کروں گا تو میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں انہیں جنت میں داخل کر آؤں گا۔ پھر دوبارہ اللہ کے حضور آؤں گا تو اپنے رب کو پہلے کی طرح دیکھوں گا اور سفارش کروں گا۔ اس مرتبہ پھر میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں انہیں جنت میں داخل کر آؤں گا۔ پھر تیسری مرتبہ کے بعد جب میں چوتھی مرتبہ واپس آؤں گا تو عرض کروں گا کہ اب جہنم میں ان لوگوں کے علاوہ اور کوئی باقی نہیں رہا جن کا قرآن نے ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ضروری قرار دے دیا ہے۔‘‘ ابو عبداللہ (امام بخاری ؒ) کہتے ہیں کہ قرآن کی رو سے دوزخ میں بند رہنے سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے (خَالِدِينَ فِيهَا) کہا گیا ہے کہ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔