تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت سے دریافت کرے گا۔ "تمھیں اس بات کا علم کیسے ہوا۔؟" وہ عرض کریں گے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خبر دی تھی کہ تمام رسولوں نے اپنی اپنی امت کو اللہ کا حکم پہنچا دیا تھا۔ ان کی خبر صحیح تھی۔ اس پر ہم نے حضرت نوح ؑ کی تصدیق کردی۔ (مسند أحمد:58/3)
2۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ گواہی کے لیے کسی چیز کا مشاہدہ ضروری نہیں بلکہ کسی امر کے متعلق علم و اطلاع ہو نا ہی کافی ہے وگرنہ اس مات کے لوگ حضرت نوح ؑ کے متعلق کیونکر گواہی دیں گے کہ وہ حق پر ہیں کیا یہ لوگ اس وقت وہاں موجود تھے؟ انھیں اس کا علم رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے ہوا اور اس علم کی بنیاد پر انھوں نے گواہی دی۔
3۔ واضح رہے کہ وسط کے لغوی معنی تو درمیان کے ہیں لیکن یہ لفظ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں اس کی وضاحت کی ہے یعنی جس طرح تمھیں سب سے بہتر قبلہ عطا کیا گیا ہے اسی طرح تمھیں تمام امتوں سے افضل بنایا گیا ہے۔ وسط کے ایک معنی اعتدال بھی کیے گئے ہیں یعنی تم معتدل اور افراط و تفریط سے پاک ہو۔ یہ معنی اسلامی تعلیمات کے اعتبار سے ہیں یعنی دینی معامالات میں نہ تو عیسائیوں کی طرح غلو کا شکار ہیں اور نہ یہودیوں کی طرح تقصیر ہی کے مرتکب ہیں۔ (فتح الباري:217/8) صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وسط کے یہ معنی مرفوع حدیث کا حصہ ہیں جیسا کہ کتاب الاعتصام میں وسطاً عدلاً کے الفاظ ہیں۔ (صحیح البخاري، الاعضام بالکتاب والسنة، حدیث:7349)