تشریح:
1۔ اس حدیث میں دور جاہلیت اور بتدائے اسلام والی تقسیم میراث کی صورت حال کو بیان کیا گیا ہے چنانچہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب آیت میراث نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کی، اللہ کے رسول اللہ ﷺ !کیا ہم چھوٹی لڑکی کو نصف میراث دے دیا کریں جبکہ نہ تو وہ گھوڑے پر سواری کر سکتی ہے اور نہ اس سے دشمن کا دفاع ہی ممکن ہے؟ بہر حال دور جاہلیت کا یہی دستور تھا کہ میراث صرف اسے دی جاتی جو میدان کارزار میں جنگجو ہوتا۔ (تفسیر جامع البیان في تأویل القرآن، تفسیر سورہ النساء، آیت 11۔ وفتح الباري:308/8)
2۔ اس میں نہایت اختصار کے ساتھ ورثاء کے حصے بیان کیے گئے ہیں کیونکہ والد کو ایک تہائی کسی صورت میں نہیں دیا جاتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک حالت میں والدین کو چھٹا چھٹا حصہ جبکہ میت کی اولاد ہو، اور ایک حالت میں ماں کو ایک تہائی ملتا ہے جب مرنے والے کی اولاد نہ ہو اسی طرح بیوی کو آٹھواں حصہ اس صورت میں دیا جاتا ہے جب مرنے والے خاوند کی اولاد ہو۔ اگر اولاد نہ ہو تو بیوی کو چوتھا حصہ دیا جاتا ہے اور خاوند کو نصف میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ملتا ہے اور اگر میت کی اولاد ہو تو خاوند کو چوتھا حصہ ملتا ہے۔ تفصیل کے لیے کتاب الفرائض کا مطالعہ کیا جائے۔