تشریح:
1۔ ان منافقین نے واپس جا کر اپنی منافقت کا ثبوت مہیا کردیا ہے، اب اگر تم چاہو کہ ہمیں ان سے لڑائی نہیں کرنی چاہیے شاید وہ راہ راست پر آجائیں تو یہ بات تمہارے بس میں نہیں۔
2۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے منافقین واجب القتل ہیں کیونکہ ان کے عزائم یہ ہیں کہ تمھیں بھی اپنے جیسا بنا کر چھوڑیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ منافقین کی ایک قسم ایسی بھی تھی جو مدینے کے ارد گرد پھیلے ہوئے قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ لوگ مسلمانوں سے خیر خواہی اور محبت کا اظہار ضرورکرتے تھے مگر عملی طور پر وہ اپنے ہم وطن کافروں کا ساتھ دیتے تھےان کےلیے یہ میعار مقررکیا گیا کہ اگر وہ ہجرت کرکے تمہارے پاس مدینہ آجائیں اور تمہارے ساتھ شامل ہوجائیں تو اس صورت میں تم انھیں سچا بھی خیال کرو اور ان سے ہمدردی بھی کرو اور اگر وہ گھر بار چھوڑنے کی قربانی نہ دیں تو انھیں قتل کرنے سے ہرگز دریغ نہ کرو لیکن اس حکم قتل سے دو قسم کے منافق مستثنیٰ ہیں۔ ©۔ جو کسی ایسی قوم میں چلے جائیں جن سے معاہدہ امن ہوچکا ہے ان کا تعاقب نہ کیا جائے۔ ©۔ وہ منافقین جو غیر جانبدار رہناچاہتے ہوں تمہارے ساتھ مل کر اپنی قوم سے یا ان کے ساتھ مل کر تم سے لڑنا نہ چاہتے ہوں۔ ان دو قسم کے لوگوں سے جنگ نہ کی جائے۔
3۔ امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان سے منافقین مدینہ ہی مراد ہیں۔ ایک تو آپ نے حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی حدیث پیش کی ہے، دوسرے مدینہ طیبہ کے متعلق صراحت کی ہے کہ وہ بھٹی کی طرح ہے جو چاندی کا میل کچیل دورکردیتی ہے۔ واللہ اعلم۔