تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد کی دیکھ بھال کے لیے خادم رکھنا سنت قدیمہ ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کے اثر سے معلوم ہوتا ہے۔ اسے ابوحاتم ؒ نے اپنی تفسیر میں موصولاً بیان کیا ہے۔ پیش کردہ روایت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مساجد کی خدمت کے لیے خادم کا تقررجائز ہے۔ جیسا کہ حدیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر کوئی انکار نہیں کیا، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اگردوسرے حضرات خدمت کرنا چاہیں تو ان کے لیے کوئی ممانعت نہیں، نیز اس خدمت کے لیے جس شخص کا تقرر ہوگا، وہ بھی تمام مسلمانوں کی طرف سے نائب کے طور پر کام کرے گا، کیونکہ اہل محلہ مل کر اس کی خدمت کریں گے۔ چونکہ یہ ضرورت سے ہے اس بنا پر اس خدمت کے عوض تنخواہ لینا بھی جائز ہے۔ یہ روایت تفصیلاً پہلے (458) گزر چکی ہے۔ 2۔ اس حدیث سے خدمت مسجد کی عظمت اور اہمیت کا پتہ چلتاہے، کیونکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے باز پرس فرمانے پر یہ معذرت کی گئی کہ آرام کا وقت تھا ہم لوگوں نے خیال کیا کہ آپ کو بیدار کرنے میں زحمت ہوگی، اس لیے آپ کو اطلاع نہیں دی گئی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رات تاریک تھی، اس لیے اس حادثے کواہمیت نہیں دی گئی۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ان حضرات نے خادمہ کے معاملے کو معمولی خیال کیا کہ ایک بے سروسامان مسجد کی خادمہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کا یہاں خویش واقارب بھی نہیں ہے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کی قبر پر جنازہ پڑھ کر اس کی عظمت واہمیت کو اجاگر فرمایا کہ مسجد میں جھاڑودینے کی خدمت کو معمولی کام نہیں خیال کرنا چاہیے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبر پر جنازہ پڑھنے کے بعد فرمایا:’’ان قبروں میں اہل قبور پر تاریکی چھائی رہتی ہے، اللہ تعالیٰ ان پر میرے جنازہ پڑھنے کی وجہ سے قبروں کو ان کے لیے منور کردیتاہے۔‘‘ (صحیح المسلم ، الجنائز، حدیث:2215 (956))