باب: چھوٹے چھوٹے نیزوں (بھالوں) سے مسجد میں کھیلنے والوں کے بیان میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: The presence of spearmen (with their spears) in the mosque (is permissible))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
460.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دن میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے حجرے کے دروازے پر کھڑے دیکھا جب کہ حبشہ کے کچھ لوگ مسجد میں (جہادی مشقیں کرتے ہوئے) کھیل رہے تھے اور رسول اللہ ﷺ اپنی چادر سے مجھے چھپا رہے تھے اور میں ان کا کھیل دیکھ رہی تھی۔
تشریح:
1۔ چھوٹے نیز ے کو خاص انداز سے چکر دے کر پھینکنا ایک کامیاب فن حرن ہے۔ اہل حبشہ کو اس میں خاص مہارت تھی۔ صحیح بخاری کی اصل روایت میں تو یہ وضاحت تھی کہ صدیقہ کائنات حضرت عائشہ ؓ نے جب کھیل دیکھاتو وہ مسجد میں ہورہاتھا لیکن اصل روایت میں اس بات کی وضاحت نہیں تھی کہ وہ کھیل نیزے کی فنی مشق سے متعلق تھا جبکہ عنوان میں ’’برچھے والوں کا مسجد میں آنا‘‘ بیان کیاگیاتھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے ایک راوی ابراہیم بن منذر کی روایت ذکر کردی جس میں نیزوں سے کھیلنے کی صر احت تھی۔ 2۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسجد چونکہ عبادت کی جگہ ہے، اس لیے جو چیزیں عبادت سے متعلق ہوں گی، صرف انھیں مسجد میں جائز ہونا چاہیے، اس کے علاوہ دوسرے کام مسجد میں جائز نہیں۔ اس قسم کے لوگوں نے مذکورہ روایت کے متعلق یہ تاثر ظاہر کیا ہے کہ اس کھیل کا مظاہرہ مسجد میں نہیں بلکہ مسجد سے باہر یا مسجد کے متعلقات میں کیا جارہا تھا۔ لیکن امام بخاری ؒ اس معاملے میں توسع کا اظہار کرنا چاہتے ہیں کہ اسلحے کی نمائش اور فنون حرب کا مظاہرہ اگرجہاد کی نیت سے ہوتوعبادت ہے اور اس قسم کی عبادت مسجد میں کی جاسکتی ہے۔ اس روایت کے بعض طرق میں ہے کہ جب اہل حبشہ مسجد میں اپنے فن کا مظاہرہ کررہے تھے تو کہیں سے حضرت عمر ؓ بھی ادھر آنکلے، انھوں نے مسجد میں اس قسم کا مظاہرہ کرنے سے منع کیاتو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اسے عمر ؓ ! رہنے دو۔‘‘ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث:2901) مقصد یہ ہے کہ اگر اس قسم کا کام جہاد کی تیاری اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہوتو اسے مسجد میں کرنے کی اجازت ہے۔ (فتح الباري:711/1) 3 ۔ حضرت مہلب ؒ نے کہا ہے:مساجد کی تعمیر دین کے اجتماعی کاموں کے لیے ہوتی ہے، اس لیے وہ تمام کام جن سے دین اور اہل دین کی منفعت وابستہ ہو، مسجد میں کیے جاسکتے ہیں۔ نیزوں سے کھیلنا دراصل اپنی جنگی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی ایک مشق ہے، اس سے دشمن پرحملہ کرنے اور اس سے اپنا دفاع کرنے کا سلیقہ آتا ہے، اس لیے اسے مسجد میں کھیلا جاسکتاہے، نیز معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ کس درجہ حسن معاشرت کا لحاظ رکھتے تھے، مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسی باتوں کوحرز جاں بنائیں اور ان کی بجاآوری کے لیے بھر پور کوشش کریں۔ (شرح ابن بطال: 104/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
450
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
454
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
454
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
454
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
پہلے باب میں یہ بیان ہوا تھا کہ مسجد میں ننگے ہتھیار لے کر جانا منع ہے۔ اس عنوان میں ایک استثنائی صورت کا بیان ہے کہ اگر مسجد میں جہادی مشقیں کرنے کے لیے ہتھیار کھول دیے جائیں تو چنداں حرج نہیں کیونکہ اس میں کوئی خطرے والی بات نہیں۔ اس کے برعکس جب بلا مقصد مسجد میں ہتھیار کھولے جائیں گے تو ان سے نقصان کا اندیشہ ہے۔(فتح الباری: 1/710)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دن میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے حجرے کے دروازے پر کھڑے دیکھا جب کہ حبشہ کے کچھ لوگ مسجد میں (جہادی مشقیں کرتے ہوئے) کھیل رہے تھے اور رسول اللہ ﷺ اپنی چادر سے مجھے چھپا رہے تھے اور میں ان کا کھیل دیکھ رہی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ چھوٹے نیز ے کو خاص انداز سے چکر دے کر پھینکنا ایک کامیاب فن حرن ہے۔ اہل حبشہ کو اس میں خاص مہارت تھی۔ صحیح بخاری کی اصل روایت میں تو یہ وضاحت تھی کہ صدیقہ کائنات حضرت عائشہ ؓ نے جب کھیل دیکھاتو وہ مسجد میں ہورہاتھا لیکن اصل روایت میں اس بات کی وضاحت نہیں تھی کہ وہ کھیل نیزے کی فنی مشق سے متعلق تھا جبکہ عنوان میں ’’برچھے والوں کا مسجد میں آنا‘‘ بیان کیاگیاتھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے ایک راوی ابراہیم بن منذر کی روایت ذکر کردی جس میں نیزوں سے کھیلنے کی صر احت تھی۔ 2۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسجد چونکہ عبادت کی جگہ ہے، اس لیے جو چیزیں عبادت سے متعلق ہوں گی، صرف انھیں مسجد میں جائز ہونا چاہیے، اس کے علاوہ دوسرے کام مسجد میں جائز نہیں۔ اس قسم کے لوگوں نے مذکورہ روایت کے متعلق یہ تاثر ظاہر کیا ہے کہ اس کھیل کا مظاہرہ مسجد میں نہیں بلکہ مسجد سے باہر یا مسجد کے متعلقات میں کیا جارہا تھا۔ لیکن امام بخاری ؒ اس معاملے میں توسع کا اظہار کرنا چاہتے ہیں کہ اسلحے کی نمائش اور فنون حرب کا مظاہرہ اگرجہاد کی نیت سے ہوتوعبادت ہے اور اس قسم کی عبادت مسجد میں کی جاسکتی ہے۔ اس روایت کے بعض طرق میں ہے کہ جب اہل حبشہ مسجد میں اپنے فن کا مظاہرہ کررہے تھے تو کہیں سے حضرت عمر ؓ بھی ادھر آنکلے، انھوں نے مسجد میں اس قسم کا مظاہرہ کرنے سے منع کیاتو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اسے عمر ؓ ! رہنے دو۔‘‘ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث:2901) مقصد یہ ہے کہ اگر اس قسم کا کام جہاد کی تیاری اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہوتو اسے مسجد میں کرنے کی اجازت ہے۔ (فتح الباري:711/1) 3 ۔ حضرت مہلب ؒ نے کہا ہے:مساجد کی تعمیر دین کے اجتماعی کاموں کے لیے ہوتی ہے، اس لیے وہ تمام کام جن سے دین اور اہل دین کی منفعت وابستہ ہو، مسجد میں کیے جاسکتے ہیں۔ نیزوں سے کھیلنا دراصل اپنی جنگی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی ایک مشق ہے، اس سے دشمن پرحملہ کرنے اور اس سے اپنا دفاع کرنے کا سلیقہ آتا ہے، اس لیے اسے مسجد میں کھیلا جاسکتاہے، نیز معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ کس درجہ حسن معاشرت کا لحاظ رکھتے تھے، مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسی باتوں کوحرز جاں بنائیں اور ان کی بجاآوری کے لیے بھر پور کوشش کریں۔ (شرح ابن بطال: 104/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے صالح بن کیسان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ حضرت عائشہ ؓ نے کہا میں نے نبی کریم ﷺ کو ایک دن اپنے حجرہ کے دروازے پر دیکھا۔ اس وقت حبشہ کے کچھ لوگ مسجد میں ( نیزوں سے ) کھیل رہے تھے ( ہتھیار چلانے کی مشق کر رہے تھے ) رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنی چادر میں چھپا لیا تا کہ میں ان کا کھیل دیکھ سکوں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Once I saw Allah's Apostle (ﷺ) at the door of my house while some Ethiopians were playing in the mosque (displaying their skill with spears). Allah's Apostle (ﷺ) was screening me with his Rida' so as to enable me to see their display.