تشریح:
1۔ حدیث کے آخری الفاظ اپنے عموم کے اعتبار سے ہر اس چیز کو شامل ہیں جو عقل کو زائل کردے وہ مشروب کسی بھی چیز سے تیار کیا گیا ہو۔ وہ خمرہے اور خمر کا پینا حرام ہے خواہ وہ انگور سے تیار کیا گیا ہو یا دوسری چیزوں سے خواہ وہ پینے کے کام آئے یا کھانے کے جیسے افیون اور ہیروئن وغیرہ بہر حال جس چیز کے زیادہ استعمال سے نشہ آئے اس کی تھوڑی سی مقدار بھی حرام ہے۔ دوسری احادیث کے مطابق شراب کا سرکہ بنانا اور اس کی خریدو فروخت کرنا حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سلسلے میں درج ذیل دس لوگوں پر لعنت فرمائی ہے۔ " شراب تیار کرنے والا جس کے لیے تیار کی جائے ،لینے والا اٹھانے والا جس کے لیے لے جائی جائے۔پلانے والا فروخت کرنے والا، اس کی قیمت کھانے والا، خریدنے والا اور جس کے لیے خریدی جائے۔"(جامع الترمذي، البیوع، حدیث:1295)
2۔ شراب کی برائی اور حرمت کے باوجود قرب قیامت کے وقت اس شراب کا کوئی دوسرا نام رکھ کر اسے حلال کرنے کی کوشش کی جائے گی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے۔ "میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا ریشم شراب اور آلات موسیقی کے کوئی دوسرے نام رکھ کر انھیں جائز قراردے لیں گے۔" (صحیح البخاري، الأشربة، حدیث:5590) شراب سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو کس قدر نفرت تھی اس کا اندازہ درج ذیل روایت سے کیا جا سکتا ہے۔ حضرت موسیٰ اشعری ؓ کہا کرتے تھے میں اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ میں شراب پی لوں یا اللہ کے سوا اس ستون کی پوجا کر لوں۔ (سنن النسائي، الأشربة، حدیث:5666)