قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ البَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: «زَمَانًا وَجَمْعُهُ أَحْقَابٌ»

4725. حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَى صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ مُوسَى قَامَ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ إِنَّ لِي عَبْدًا بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ قَالَ مُوسَى يَا رَبِّ فَكَيْفَ لِي بِهِ قَالَ تَأْخُذُ مَعَكَ حُوتًا فَتَجْعَلُهُ فِي مِكْتَلٍ فَحَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ ثُمَّ انْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ حَتَّى إِذَا أَتَيَا الصَّخْرَةَ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا فَنَامَا وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ فَخَرَجَ مِنْهُ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْ الْحُوتِ جِرْيَةَ الْمَاءِ فَصَارَ عَلَيْهِ مِثْلَ الطَّاقِ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ نَسِيَ صَاحِبُهُ أَنْ يُخْبِرَهُ بِالْحُوتِ فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتَهُمَا حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ الْغَدِ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَا الْمَكَانَ الَّذِي أَمَرَ اللَّهُ بِهِ فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا قَالَ فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَلِمُوسَى وَلِفَتَاهُ عَجَبًا فَقَالَ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا قَالَ رَجَعَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى ثَوْبًا فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى فَقَالَ الْخَضِرُ وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ قَالَ أَنَا مُوسَى قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ أَتَيْتُكَ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا يَا مُوسَى إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ أَنْتَ وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ فَقَالَ مُوسَى سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ سَفِينَةٌ فَكَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمْ فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُمْ بِغَيْرِ نَوْلٍ فَلَمَّا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ لَمْ يَفْجَأْ إِلَّا وَالْخَضِرُ قَدْ قَلَعَ لَوْحًا مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ بِالْقَدُومِ فَقَالَ لَهُ مُوسَى قَوْمٌ قَدْ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتْ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا قَالَ وَجَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ نَقْرَةً فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ مَا عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلُ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْ هَذَا الْبَحْرِ ثُمَّ خَرَجَا مِنْ السَّفِينَةِ فَبَيْنَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ إِذْ أَبْصَرَ الْخَضِرُ غُلَامًا يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ رَأْسَهُ بِيَدِهِ فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ فَقَتَلَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَى أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاكِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا قَالَ وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنْ الْأُولَى قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ قَالَ مَائِلٌ فَقَامَ الْخَضِرُ فَأَقَامَهُ بِيَدِهِ فَقَالَ مُوسَى قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُطْعِمُونَا وَلَمْ يُضَيِّفُونَا لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ إِلَى قَوْلِهِ ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى كَانَ صَبَرَ حَتَّى يَقُصَّ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنْ خَبَرِهِمَا قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَكَانَ يَقْرَأُ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ لفظ «حقباء» کے معنی زمانہ، اس کی جمع «أحقاب» آتی ہے (بعضوں نے کہا کہ ایک «حقب» ستر یا اسی سال کا ہوتا ہے)۔

4725.

حضرت سعید بن جبیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے: خضر کے ساتھی حضرت موسٰی وہ بنی اسرائیل کے موسٰی نہیں ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: وہ اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے۔ مجھے حضرت ابی بن کعب ؓ نے بتایا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’حضرت موسٰی ؑ بنی اسرائیل میں خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اس دوران میں آپ سے پوچھا گیا: لوگوں میں زیادہ عالم کون ہے؟ حضرت موسٰی ؑ نے فرمایا: میں سب سے بڑا عالم ہوں۔ اس بات پر اللہ تعالٰی ناراض ہوئے کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ تعالٰی کی طرف منسوب نہیں کیا۔ اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی ؑ کی طرف وحی بھیجی کہ دو دریاؤں کے سنگم پر میرا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ حضرت موسٰی ؑ نے عرض کی: اے میرے رب! میں اس سے ملاقات کس طرح کر سکتا ہوں؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا: اپنے ساتھ ایک مچھلی لے لو اور اسے زنبیل میں رکھ لو۔ جہاں وہ گم ہو جائے، میرا وہ بندہ وہیں آپ سے ملے گا، چنانچہ انہوں نے ایک مچھلی لی اور اسے زنبیل میں رکھا، پھر عازم سفر ہوئے۔ ان کے ساتھ ان کے خادم یوشع بن نون بھی تھے۔ جب یہ دونوں چٹان کے پاس آئے تو وہاں سر رکھ کر سو گئے۔ اتنے میں مچھلی زنبیل میں حرکت کرنے لگی، پھر باہر کود کر اس نے دریا میں اپنا راستہ سرنگ کی صورت میں بنا لیا۔ مچھلی جہاں گری تھی اللہ تعالٰی نے پانی کے بہاؤ کو روک لیا اور مچھلی کے لیے ایک طاق کی طرح راستہ بن گیا۔ جب موسٰی ؑ بیدار ہوئے تو ان کے خادم انہیں مچھلی کا واقعہ بتانا بھول گئے۔ وہ دونوں باقی دن رات چلتے رہے حتی کہ دوسرے دن حضرت موسٰی ؑ نے اپنے خادم سے کہا: ’’اب ہمارا ناشتہ لاؤ، ہمیں تو اس سفر نے بہت تھکا دیا ہے۔‘‘ موسٰی ؑ نے تھکان اس وقت محسوس کی جب اس جگہ سے آگے گزر گئے جس کا اللہ تعالٰی نے انہیں حکم دیا تھا۔ اب ان کے خادم نے ان سے کہا: ’’بھلا آپ نے دیکھا جب ہم اس چٹان کے پاس جا کر ٹھہرے تھے تو میں (تمہیں) مچھلی (کا واقعہ) بتانا بھول گیا اور وہ مجھے صرف شیطان نے بھلوایا کہ میں (آپ سے) اس کا ذکر کروں۔ اس نے تو عجیب طریقے سے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا تھا۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مچھلی نے تو دریا میں اپنا راستہ لیا لیکن حضرت موسٰی ؑ اور ان کے خادم کو راستہ کے نشانات دیکھ کر تعجب ہوا۔ حضرت موسٰی ؑ نے فرمایا: ’’یہی تو وہ جگہ تھی جس کی ہمیں تلاش تھی، چنانچہ وہ دونوں اپنے نقش قدم پر چلتے چلتے آخر اس چٹان تک پہنچ گئے۔‘‘ وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب کپڑا لپیٹے (لیٹے) ہوئے ہیں۔ حضرت موسٰی ؑ نے انہیں سلام کیا۔ حضرت خضر نے کہا: تمہاری اس سرزمین میں سلام کیسے؟ حضرت موسٰی ؑ نے اپنا تعارف کرایا کہ میں موسٰی ہوں۔ انہوں نے فرمایا: موسٰی، جو بنی اسرائیل کے ہیں؟ حضرت موسٰی ؑ نے فرمایا: ہاں، میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ رشد و ہدایت کی تعلیم دیں جس کی آپ کو تعلیم دی گئی ہے۔ حضرت خضر نے کہا: ’’اے موسٰی! آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔‘‘ اللہ تعالٰی نے مجھے جو علم دیا ہے وہ آپ نہیں جانتے اور جو علم اللہ تعالٰی نے آپ کو دیا ہے وہ میں نہیں جانتا۔ حضرت موسٰی ؑ نے فرمایا: ’’إن شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔ اور میں کسی معاملے میں آپ کے خلاف نہیں کروں گا۔‘‘ حضرت خضر نے کہا: ’’اگر آپ میرے ساتھ چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو مجھ سے کسی چیز کے متعلق سوال نہ کرنا حتی کہ میں خود اس کا حال بیان کرنا شروع کروں۔‘‘ اب یہ دونوں سمندر کے کنارے کنارے روانہ ہوئے، اتنے میں ایک کشتی گزری، انہوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ انہیں بھی اس پر سوار کر لیں۔ انہوں نے حضرت خضر کو پہچان لیا اور کسی کرائے کے بغیر انہیں سوارکر لیا۔ جب یہ دونوں کشتی میں بیٹھ گئے تو حضرت خضر نے تیشے سے کشتی کے تختوں سے ایک تختہ باہر نکال دیا۔ جب حضرت موسٰی ؑ نے یہ دیکھا تو حضرت خضر سے فرمایا کہ ان لوگوں نے ہمیں کرائے کے بغیر کشتی میں سوار کیا اور تم نے قصدا اس کا تختہ توڑ ڈالا‘‘ تاکہ کشتی میں سوار لوگوں کو غرق کر دو، بلاشبہ آپ نے بہت ہولناک اور ناگوار کام کیا ہے۔‘‘ حضرت خضر نے کہا: ’’میں نے تمہیں پہلے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔‘‘ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: ’’جو بات میں بھول گیا تھا، اس پر آپ مجھے معاف کر دیں اور میرے معاملے میں مجھ پر تنگی نہ کریں۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: واقعی پہلی دفعہ موسٰی ؑ نے بھول کر انہیں ٹوکا تھا۔ اس دوران میں ایک چڑیا آئی اور اس نے کشتی کے کنارے بیٹھ کر دریا میں ایک مرتبہ اپنی چونچ ماری۔ حضرت خضر نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا: میرے اور آپ کے علم کی حیثیت اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں جتنا اس چڑیا نے سمندر سے پانی کم کیا ہے۔ پھر وہ دونوں کشتی سے اتر گئے۔ ابھی وہ سمندر کے کنارے کنارے جا رہے تھے کہ حضرت خضر نے ایک بچے کو دیکھا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ حضرت خضر نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر پکڑا اور اس کے تن سے جدا کر دیا اور اسے مار دیا۔ حضرت موسٰی ؑ نے ان سے فرمایا: ’’آپ نے ایک بے گناہ اور معصوم جان کو بغیر کسی جان کے بدلے مار دیا ہے، یقینا آپ نے انتہائی ناپسندیدہ کام کیا ہے۔‘‘ حضرت خضر نے کہا: ’’میں تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔‘‘ راوی نے کہا: یہ کام تو پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے آکر اس مرتبہ بھی معذرت کر لی کہ ’’اگر میں نے اس کے بعد پھر آپ سے کوئی سوال کیا تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیے گا، آپ میرا بار بار عذر سن چکے ہیں۔ پھر دونوں روانہ ہوئے یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور بستی والوں سے کہا: ہمیں اپنا مہمان بنا لو، لیکن انہوں نے میزبانی سے انکار کر دیا۔ پھر انہیں بستی میں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی، یعنی وہ جھک رہی تھی۔‘‘ حضرت خضر کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھ سے دیوار کو سیدھا کر دیا۔ حضرت موسٰی ؑ نے فرمایا: ہم ان لوگوں کے پاس آئے اور ان سے مہمانی کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے ہماری میزبانی سے صاف انکار کر دیا۔‘‘ اگر آپ چاہتے تو دیوار سیدھی کرنے پر اجرت لے سکتے تھے۔‘‘ حضرت خضر نے کہا: ’’یہ میری اور آپ کی جدائی کا وقت ہے ۔۔ اب یہ حقیقت ہے ان معاملات کی جن پر آپ صبر نہیں کر سکے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہماری یہ خواہش تھی کہ حضرت موسٰی ؑ صبر سے کام لیتے تاکہ اللہ تعالٰی ان کے مزید واقعات ہم سے بیان کرتا۔ سعید بن جبیر نے کہا کہ حضرت ابن عباس ؓ اس طرح آیت کی تلاوت کرتے تھے: ’’کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی چھین لیتا تھا۔‘‘ اور اس آیت کی بھی یوں تلاوت کرتے تھے: ’’اور وہ بچہ تو کافر تھا جبکہ اس کے والدین مومن تھے۔‘‘