تشریح:
1۔ حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق قرآنی تصریحات کے باوجود صوفیاء حضرات نے ان کی شخصیت کو ایک معمہ بنادیا ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ وہ اس عالم اور دنیا میں بقید حیات ہیں اور بھٹکے ہوئے انسانوں کی رہنمائی کے لیے وہ گاہے بگاہے جلوہ افروز ہوتے ہیں۔
2۔ ہمارے رجحان کے مطابق حسب ذیل دلائل و براہین کے پیش نظر وہ وفات پاچکے ہیں: ©۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے چند دن پہلے فرمایاتھا: ’’آج کے دن روئے زمین پر جو ذی روح ہے، سو سال بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:116) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ موجودہ لوگ موت کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:601) اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے ایک ماہ قبل فرمایا تھا: ’’آج جو چیزس بھی روئے زمین پر زندہ رہے سوسال بعد وہ ختم ہوجائے گی۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6481۔(2538)) حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اس قسم کی روایت مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک سے واپس پر یہ الفاظ کہے تھے۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6485(2539)) ©۔ کچھ اہل علم سے منقول ہے کہ ان سے حضرت خضر علیہ السلام کی زندگی کے متعلق سوال ہوا تو انھوں نے اس کے جواب میں درج ذیل آیت پڑھ دی:’’آپ سے پہلے ہم نے کسی انسان کو ہمیشہ کی زندگی نہیں بخشی۔‘‘ (الأنبیاء :34:21) ©۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن اوانس کی طرف بھیجے گئے ہیں حضرت خضر علیہ السلام کا آپ کے پاس آ کر بیعت نہ کرنا بھی ان کی وفات پر دلالت کرتا ہے۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو لازمی طورپر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے، آپ پر ایمان لاتے اور آپ کی اطاعت کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا تھا: ’’اللہ کی قسم! اگرآج موسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو انھیں بھی میری اطاعت کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہوتا۔‘‘ (مسند أحمد:338/3 و إسنادہ ضعیف) (©۔ اگر کسی آدم زاد کا زندہ رہنا صحیح ہوتا تو کم از کم قرآن مجید میں اس کا ذکر ضرورہوتا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کاملہ پر دلالت کرنے والی ایک عظیم نشانی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے متعلق قرآن کریم میں صراحت کی ہے کہ وہ قرب قیامت تک زندہ رہے گا۔ اگر اس کے ساتھ اپنے مقرب بندے کی زندگی کا ذکر بھی کر دیا جاتا تو قرآن ہردو کی ابدی زندگی پر مشتمل ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ حضرت خضر علیہ السلام کی زندگی کا قطعی ثبوت نہیں بلکہ ان کی موت پر قوی دلائل موجود ہیں۔ ©۔ ا گرحضرت خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو لازماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے ساتھ مل کر کفار و مشرکین سے جہاد کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدرکے دن فرمایا: ’’اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ختم ہوگئی تو روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح البخاري، الجھاد و السیر، حدیث:2915) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے صرف وہی لوگ تھے جنھیں اصحاب بدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ صرف تین سوتیرہ تھے، جن کے نام معروف ومشہور ہیں۔ ان میں حضرت خضر علیہ السلام کا نام نہیں ہے، اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ وہ اس وقت موجود نہیں تھے بلکہ خالق حقیقی سے جاملے تھے۔ ©۔ حضرت خضر علیہ السلام کی ابدی زندگی کا عقیدہ رکھنا اللہ تعالیٰ کے ذمے ایک ایسی بات لگانا ہے جس کا ہمیں علم نہیں، ایسا کرنا بالکل حرام اور ناجائز ہے۔ کیونکہ ان کی ہمیشہ کی زندگی کا ثبوت یا تو قرآن و حدیث میں موجود ہو یا کم از کم اجماع امت سے ثابت ہونا چاہیے۔ کتاب و سنت ہمارے سامنے ہیں کسی مقام پر اس کا اشارہ تک نہیں ملتا اور نہ کسی وقت علمائے امت نے اس پر اجماع ہی کیا ہے۔ دراصل اس قسم کی بلادلیل اور بے سروپا باتیں کرنے والے ان کے ذریعے سے بدعات وخرافات کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں جتنی بھی روایات ہیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام پر سیر حاصل بحث کر کے ثابت کیا ہے کہ ان کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔ (فتح الباري:528/6)