قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا} إِلَى قَوْلِهِ: {عَجَبًا})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: {صُنْعًا} [الكهف: 104]: «عَمَلًا»، {حِوَلًا} [الكهف: 108]: «تَحَوُّلًا» {قَالَ: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا} [الكهف: 64]، {إِمْرًا} [الكهف: 71] وَ {نُكْرًا} [الكهف: 74]: «دَاهِيَةً»، {يَنْقَضَّ} [الكهف: 77]: «يَنْقَاضُ كَمَا تَنْقَاضُ السِّنُّ»، (لَتَخِذْتَ): «وَاتَّخَذْتَ وَاحِدٌ»، {رُحْمًا} [الكهف: 81]: «مِنَ الرُّحْمِ، وَهِيَ أَشَدُّ مُبَالَغَةً مِنَ الرَّحْمَةِ، وَنَظُنُّ أَنَّهُ مِنَ الرَّحِيمِ، وَتُدْعَى مَكَّةُ أُمَّ رُحْمٍ أَيِ الرَّحْمَةُ تَنْزِلُ بِهَا»

4727. حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنِي سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ بِمُوسَى الْخَضِرِ فَقَالَ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَامَ مُوسَى خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقِيلَ لَهُ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ قَالَ أَنَا فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ وَأَوْحَى إِلَيْهِ بَلَى عَبْدٌ مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ قَالَ أَيْ رَبِّ كَيْفَ السَّبِيلُ إِلَيْهِ قَالَ تَأْخُذُ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ فَحَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَاتَّبِعْهُ قَالَ فَخَرَجَ مُوسَى وَمَعَهُ فَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ وَمَعَهُمَا الْحُوتُ حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَنَزَلَا عِنْدَهَا قَالَ فَوَضَعَ مُوسَى رَأْسَهُ فَنَامَ قَالَ سُفْيَانُ وَفِي حَدِيثِ غَيْرِ عَمْرٍو قَالَ وَفِي أَصْلِ الصَّخْرَةِ عَيْنٌ يُقَالُ لَهَا الْحَيَاةُ لَا يُصِيبُ مِنْ مَائِهَا شَيْءٌ إِلَّا حَيِيَ فَأَصَابَ الْحُوتَ مِنْ مَاءِ تِلْكَ الْعَيْنِ قَالَ فَتَحَرَّكَ وَانْسَلَّ مِنْ الْمِكْتَلِ فَدَخَلَ الْبَحْرَ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ مُوسَى قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا الْآيَةَ قَالَ وَلَمْ يَجِدْ النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ مَا أُمِرَ بِهِ قَالَ لَهُ فَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ الْآيَةَ قَالَ فَرَجَعَا يَقُصَّانِ فِي آثَارِهِمَا فَوَجَدَا فِي الْبَحْرِ كَالطَّاقِ مَمَرَّ الْحُوتِ فَكَانَ لِفَتَاهُ عَجَبًا وَلِلْحُوتِ سَرَبًا قَالَ فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ إِذْ هُمَا بِرَجُلٍ مُسَجًّى بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى قَالَ وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ فَقَالَ أَنَا مُوسَى قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا قَالَ لَهُ الْخَضِرُ يَا مُوسَى إِنَّكَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ وَأَنَا عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ اللَّهُ لَا تَعْلَمُهُ قَالَ بَلْ أَتَّبِعُكَ قَالَ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ فَمَرَّتْ بِهِمْ سَفِينَةٌ فَعُرِفَ الْخَضِرُ فَحَمَلُوهُمْ فِي سَفِينَتِهِمْ بِغَيْرِ نَوْلٍ يَقُولُ بِغَيْرِ أَجْرٍ فَرَكِبَا السَّفِينَةَ قَالَ وَوَقَعَ عُصْفُورٌ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَغَمَسَ مِنْقَارَهُ فِي الْبَحْرِ فَقَالَ الْخَضِرُ لِمُوسَى مَا عِلْمُكَ وَعِلْمِي وَعِلْمُ الْخَلَائِقِ فِي عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِقْدَارُ مَا غَمَسَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْقَارَهُ قَالَ فَلَمْ يَفْجَأْ مُوسَى إِذْ عَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى قَدُومٍ فَخَرَقَ السَّفِينَةَ فَقَالَ لَهُ مُوسَى قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ الْآيَةَ فَانْطَلَقَا إِذَا هُمَا بِغُلَامٍ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَقَطَعَهُ قَالَ لَهُ مُوسَى أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا إِلَى قَوْلِهِ فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَقَالَ بِيَدِهِ هَكَذَا فَأَقَامَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَى إِنَّا دَخَلْنَا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا قَالَ وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ لفظ «صنعا» عمل کے معنی میں ہے۔ «حولا» بمعنی پھر جانا۔ موسیٰ ؑنے فرمایا یہی تو وہ چیز تھی جو ہم چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ دونوں الٹے پاؤں واپس لوٹے۔ «إمرا» کا معنی عجیب بات۔ «نكرا» کا بھی یہی معنی ہے۔ «ينقض» اور «ينقاض» ‏‏‏‏ دونوں کا ایک ہی معنی ہے جیسے کہتے ہیں «تنقاض السن» یعنی دانت گر رہا ہے۔ «لتخذت» اور «واتخذت» (دونوں روایتیں ہیں) دونوں کا معنی ایک ہیں۔ «رحما»، «رحم» سے نکلا ہے جس کے معنی بہت رحمت تو یہ مبالغہ ہے رحمت کا اور ہم سمجھتے ہیں (یا لوگ سمجھتے ہیں) کہ یہ «رحم» سے نکلا ہے۔ اسی لیے مکہ کو «أم رحم» کہتے ہیں کیونکہ وہاں پروردگار کی رحمت اترتی ہے۔

4727.

حضرت سعید بن جبیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے عرض کی: نوف بکالی کہتا کہ حضرت موسٰی ؑ جو بنی اسرائیل کے رسول تھے وہ موسٰی نہیں تھے جو حضرت خضر ؑ سے ملے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اللہ کے دشمن نے غلط بات کہی ہے۔ ہم سے حضرت ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ایک دن حضرت موسٰی ؑ بنی اسرائیل کو وعظ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا: سب سے بڑا عالم کون ہے؟ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: میں ہوں۔ اللہ تعالٰی نے اس پر عتاب کیا کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی تھی۔ اور اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دو دریاؤں کے سنگم پر رہتا ہے وہ تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ حضرت موسٰی ؑ نے عرض کی: اے میرے رب! ان تک پہنچنے کا کیا طریقہ ہو گا؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا: ایک مچھلی زنبیل میں ساتھ لے لو، پھر وہ مچھلی جہاں گم ہو جائے وہیں انہیں تلاش کرو۔ الغرض موسیٰ ؑ نکل پڑے اور آپ کے ساتھ آپ کے رفیق سفر یوشع بن نون بھی تھے۔ مچھلی ان کے پاس تھی۔ جب وہ چٹان تک پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ حضرت موسٰی ؑ اپنا سر وہیں رکھ کر سو گئے ۔۔ سفیان نے عمرو کی روایت کے علاوہ دوسری روایت کے حوالے سے بیان کیا کہ اس چٹان کی جڑ میں ایک چشمہ تھا جسے "حیات" کہا جاتا تھا، جس چیز پر بھی اس کا پانی پڑتا وہ زندہ ہو جاتی تھی ۔ اس مچھلی پر اس کا پانی پڑا تو اس کے اندر حرکت پیدا ہو گئی اور وہ زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔ حضرت موسیٰ ؑ جب بیدار ہوئے تو "انہوں نے اپنے ساتھی سے فرمایا ہمارا ناشتہ لاؤ ۔۔" اس سفر کے دوران میں حضرت موسیٰ ؑ کو سفر کی تھکاوٹ کا کوئی احساس نہ ہوا۔ جب مقررہ جگہ سے آگے بڑھے تو تھکاوٹ محسوس کی، تاہم ان کے رفیق سفر یوشع بن نون نے عرض کی: "آپ نے دیکھا جب ہم چٹان کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے تو میں مچھلی کے متعلق آپ کو آگاہ کرنا بھول گیا ۔۔" پھر وہ دونوں الٹے پاؤں واپس آئے، دیکھا کہ جہاں مچھلی پانی میں گری تھی وہاں اس کے گزرنے کی جگہ پر طاق کی سی صورت بنی ہوئی تھی۔ مچھلی تو پانی میں چلی گئی تھی لیکن یوشع بن نون کو اس طرح پانی کے رک جانے پر تعجب تھا۔ جب وہ چٹان کے پاس پہنچے تو وہاں ایک بزرگ کو کپڑے میں لپٹا ہوا پایا۔ حضرت موسٰی ؑ نے اسے سلام کیا تو انہوں نے فرمایا: تمہاری زمین میں سلام کہاں سے آ گیا؟ فرمایا: میں موسٰی ہوں۔ انہوں نے دریافت کیا: بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا: جی ہاں۔ حضرت موسٰی ؑ نے ان سے مزید کہا: کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ علم ہدایت جو آپ کو دیا گیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں؟ حضرت خضر ؑ نے کہا: اے موسیٰ! آپ کو اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو میں نہیں جانتا اور اسی طرح اللہ کی طرف سے مجھے ایسا علم حاصل ہے جو آپ نہیں جانتے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔ حضرت خضر ؑ نے فرمایا: "اگر آپ نے میرے ساتھ رہنا ہی ہے تو پھر مجھ سے کسی چیز کے متعلق مت پوچھیں حتی کہ میں خود آپ کو بتانا شروع کروں۔" چنانچہ دونوں حضرات دریا کے کنارے کنارے روانہ ہوئے۔ ان کے قریب سے ایک کشتی گزری تو حضرت خضر ؑ کو کشتی والوں نے پہچان لیا اور اپنی کشتی میں انہیں بغیر کرائے کے سوار کر لیا۔ وہ دونوں کشتی میں سوار ہو گئے۔ اس دوران میں ایک چڑیا کشتی کے کنارے پر آ بیٹھی اور اس نے اپنی چونچ کو دریا میں ڈالا تو حضرت خضر ؑ نے موسٰی ؑ سے فرمایا: میرا، تمہارا اور دیگر تمام مخلوق کا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں جتنا اس چڑیا نے اپنی چونچ میں دریا کا پانی لیا ہے۔ پھر یکدم حضرت خضر ؑ نے تیشہ اٹھایا اور کشتی کو توڑ دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ان لوگوں نے کرائے کے بغیر ہمیں اپنی کشتی میں سوار کیا اور آپ نے بدلے میں یہ دیا کہ ان کی کشتی کو توڑ ڈالا تاکہ اس میں سوار تمام مسافر پانی میں ڈوب مریں۔ یقینا آپ نے انتہائی (نامناسب) کام کیا ہے۔ پھر وہ دونوں آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک بچہ جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، حضرت خضر ؑ نے اس کا سر پکڑا اور اسے جسم سے الگ کر دیا۔ اس پر حضرت موسیٰ ؑ بول پڑے: "آپ نے بلا کسی خون و بدلہ کے ایک معصوم بچے کی جان لے لی۔ یہ تو بہت نازیبا حرکت ہے۔ خضر نے کہا: میں نے آپ سے پہلے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے ۔۔" اس بستی والوں نے ان کی میزبانی سے انکار کر دیا۔ پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔" حضرت خضر ؑ نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا اور اسے سیدھا کر دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: ہم اس بستی میں آئے تو انہوں نے ہماری میزبانی سے انکار کر دیا اور ہمیں کھانا بھی نہیں دیا "اگر آپ چاہتے تو اس کے بدلے میں اجرت لے سکتے تھے۔ حضرت خضر نے فرمایا: یہ میرے اور آپ کے درمیان جدائی کا وقت ہے۔ میں عنقریب آپ کو ان کاموں کی وجہ سے آگاہ کر دوں گا جن پر آپ نے صبر نہیں کیا۔" اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "کاش! موسٰی ؑ نے صبر کیا ہوتا تو ہمیں اس سلسلے سے متعلق مزید واقعات بیان کیے جاتے۔" راوی نے کہا: حضرت ابن عباس ؓ یوں پڑھا کرتے تھے: وكان امامهم ملك ياخذ كل سفينة صالحة غصبا۔ اور یہ بھی پڑھا کرتے تھے: وا الغلام فكان كافرا ۔۔۔