تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نےگمراہ صوفیاءکے متعلق لکھا ہے کہ وہ اس واقعے سے یہ مسئلہ کشید کرتے ہیں کہ شرعی احکام عام لوگوں کے لیے کے لیے ہیں۔ لیکن جو اولیاء اور خاص الخاص ہیں انھیں ان احکام شرعیہ کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ وہ ان سے بے نیاز ہوتے ہیں۔" (فتح الباری:1/292) اس فکر کی تردید کرتے ہوئے شارح عقیدہ طحاویہ لکھتے ہیں جو شخص موسیٰ اور خضر علیہ السلام کے واقعے کو حجت بنا کر علم لدنی کے ذریعے سے علم شریعت کی عدم ضرورت کا دعوی کرتا ہے وہ گمراہ بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج ہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کی طرف نہیں بھیجے گئے تھے اور نہ ان میں سے ایک کو دوسرے کی پیروی کا پابندہی بنایا گیا تھا اسی لیے حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سوال کیا تھا: کیا تو وہ موسیٰ ہے جسے بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے؟ اس کے برعکس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو جن وانس کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا تو وہ شریعت محمد یہ ہی نافذ کریں گے بنا بریں جو شخص یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہمارے پیغمبر کے ساتھ وہی حیثیت ہے جو حضرت خضر علیہ السلام کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یا امت کے کسی فرد کو یہ اتھارٹی دیتا ہے اسے چاہیے کہ کلمہ شہادت دوبارہ ادا کرے کیونکہ وہ اس قسم کے کلمہ کفر سے اپنے اسلام کو خیر باد کہہ بیٹھا ہے۔ ایسا آدمی شیطان کا دوست اور اس کا قریبی ہے چہ جائیکہ ہم اسے ولی اللہ قراردیں۔ یہ وہی چوراہا ہے جہاں سے اہل حق اور اہل باطل الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ (شرح العقیدہ الطحاویہ ص512)
2۔ ایسا عقیدہ رکھنے والوں کے متعلق امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شریعت کا خون کرنے والوں کے لیے یہ واقعہ کسی طرح بھی حجت نہیں بن سکتا کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف رسول بن آئے تھے، حضرت خضر علیہ السلام پر ان کی اطاعت ضروری نہ تھی کیونکہ آپ کا دائرہ رسالت محدود تھا۔ اسی لیے تو حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو علم آپ کو دیا ہے اسے میں نہیں جا نتا اور جو علم اس کی طرف سے مجھے ملا ہے اس تک آپ کی رسائی نہیں البتہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں اور جنوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور آپ کا حلقہ رسالت نہایت ہی وسیع ہے لہٰذاس کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ شریعت و طریقت کا بہانہ بنا کر آپ کی اطاعت سے انکار کرے۔ اور نہ اس طرح شریعت مطہرہ کو ٹھکرانے کی گنجائش ہی ہے۔ اس کے علمی اور عملی دونوں پہلو برابر ہیں کسی کو قطعاً کوئی حق نہیں کہ وہ ایسی بات کہے جو حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہی تھی کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کی طرف مبعوث ہی نہیں ہوئے تھے کہ انھیں ان کی اطاعت کا پابند کیا جائے۔پھر حضرت خضر علیہ السلام کے اس واقعے میں کوئی خلاف شرع بات نہیں بلکہ شریعت مطہرہ کے عین مطابق اور ایسا کرنے کی گنجائش موجود ہے بشرطیکہ حضرت خضر علیہ السلام کی طرح ان امور کے اسباب معلوم ہوں یہی وجہ ہے کہ جب حضرت خضر علیہ السلام نے ان مور کے اسباب ووجوہ بیان کیے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی انھیں درست قراردیا اور تسلیم کر کے ان کی موافقت فرمائی۔ اگر خلاف شرع ہوتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کسی صورت میں بھی ان سے اتفاق نہ کرتے چنانچہ کشتی والے واقعے کو لیجیے کہ اگر کسی کامال بچانے کے لیے تھوڑا بہت نقصان ہو جائے تو اس میں کیا حرج ہے! سارا مال ضائع ہونے سے بہتر ہے کہ تھوڑا بہت نقصان کر کے باقی ماندہ کو بچا لیا جائے۔ چرواہے کو اجازت ہے کہ وہاں بکری ذبح کردے۔ جس کے متعلق مرنے کا اندیشہ ہو جیسا کہ عہد رسالت میں اس قسم کا واقعہ پیش بھی آیا تھا۔ اسی طرح بے گناہ معصوم لڑکے قتل کردینے کے واقعے سے حضرت خضر علیہ السلام کو معلوم تھا کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر والدین کے لیے وبال جان بن جائے گا اس لیے اس کے قتل کرنے میں ہی عافیت تھی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قیدی لڑکوں کے متعلق فرمایا تھا کہ اگر ان میں ایسی چیز معلوم ہو جائے جو آئندہ کسی فتنے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے تو ان کا صفایا کردیا جائے جیسا کہ حضرت خضر علیہ السلام کو معلوم ہو گیا تھا۔ اگر ایسا نہ ہو تا تو قتل کرنے کی قطعاً اجازت نہ ہوتی باقی رہا معاملہ دیوار بنانے کا تو یہ ایک نیکی کاکام ہے۔ اگرچہ اجرت کی ضرورت تھی لیکن آپ نے اس کار خیر کو فی سبیل اللہ سر انجام دیا کیونکہ وہ نیک لوگوں کے ساتھ تعاون کی ایک شکل تھی۔ (مجموعۃ الوسائلوالمسائل:2/62)