تشریح:
1۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ابوطالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ جواب دیا: اگرقریش مجھے یہ عار نہ دلائیں کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے کلمہ توحید کہنے پر مجبور کردیا تو میرےبھتیجے! میں یہ کلمہ پڑھ کر تیری آنکھیں ٹھنڈی کردیتا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (جامع الترمذي، تفسیرالقرآن، حدیث:3188)
2۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابو طالب نے مکی دور میں ا پنے آخری دم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت اور سرپرستی کی، نیز ہرمشکل وقت میں آپ کا ساتھ دیا لیکن وہ ہدایت سے محروم رہا، تاہم حمایت کی وجہ سے اسے عذاب میں ضرور تخفیف ہوگی جیسا کہ سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!ابوطالب آپ کی حفاظت کرتا تھا اور اس نے آپ کی خاطر سب کی ناراضی مول لی تھی، کیا آپ کی ذات سے اسے کوئی فائدہ پہنچے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتا۔‘‘(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3883) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن شاید انھیں میری سفارش سے کچھ فائدہ پہنچے اور وہ ہلکی آگ میں رکھے جائیں جو ان کے ٹخنوں تک ہو جس کی وجہ سے اس کا بھیجا ابلتا رہے گا۔‘‘(صحیح البخاری الرقاق حدیث:6564) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ ’’جہنم میں سب سے ہلکا عذاب ابوطالب کو ہوگا۔ وہ آگ کی دوجوتیاں پہنے گا جس سے اس کا بھیجا کھول رہا ہوگا۔‘‘(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:515(212))