قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ:{إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4772. حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَقَالَ أَيْ عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ وَيُعِيدَانِهِ بِتِلْكَ الْمَقَالَةِ حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَبَى أَنْ يَقُولَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أُولِي الْقُوَّةِ لَا يَرْفَعُهَا الْعُصْبَةُ مِنْ الرِّجَالِ لَتَنُوءُ لَتُثْقِلُ فَارِغًا إِلَّا مِنْ ذِكْرِ مُوسَى الْفَرِحِينَ الْمَرِحِينَ قُصِّيهِ اتَّبِعِي أَثَرَهُ وَقَدْ يَكُونُ أَنْ يَقُصَّ الْكَلَامَ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ عَنْ جُنُبٍ عَنْ بُعْدٍ عَنْ جَنَابَةٍ وَاحِدٌ وَعَنْ اجْتِنَابٍ أَيْضًا يَبْطِشُ وَيَبْطُشُ يَأْتَمِرُونَ يَتَشَاوَرُونَ الْعُدْوَانُ وَالْعَدَاءُ وَالتَّعَدِّي وَاحِدٌ آنَسَ أَبْصَرَ الْجِذْوَةُ قِطْعَةٌ غَلِيظَةٌ مِنْ الْخَشَبِ لَيْسَ فِيهَا لَهَبٌ وَالشِّهَابُ فِيهِ لَهَبٌ وَالْحَيَّاتُ أَجْنَاسٌ الْجَانُّ وَالْأَفَاعِي وَالْأَسَاوِدُ رِدْءًا مُعِينًا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ يُصَدِّقُنِي وَقَالَ غَيْرُهُ سَنَشُدُّ سَنُعِينُكَ كُلَّمَا عَزَّزْتَ شَيْئًا فَقَدْ جَعَلْتَ لَهُ عَضُدًا مَقْبُوحِينَ مُهْلَكِينَ وَصَّلْنَا بَيَّنَّاهُ وَأَتْمَمْنَاهُ يُجْبَى يُجْلَبُ بَطِرَتْ أَشِرَتْ فِي أُمِّهَا رَسُولًا أُمُّ الْقُرَى مَكَّةُ وَمَا حَوْلَهَا تُكِنُّ تُخْفِي أَكْنَنْتُ الشَّيْءَ أَخْفَيْتُهُ وَكَنَنْتُهُ أَخْفَيْتُهُ وَأَظْهَرْتُهُ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ مِثْلُ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ يُوَسِّعُ عَلَيْهِ وَيُضَيِّقُ عَلَيْهِ

مترجم:

4772.

حضرت سعید بن مسیب کے والد حضرت مسیب بن حزن سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ نے دیکھا کہ ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ بھی پہلے ہی وہاں بیٹھے ہیں۔ آپ نے ابوطالب سے فرمایا: ’’چچا جان! آپ لا اله الا اللہ پڑھ لیں تو میں قیامت کے دن اللہ تعالٰی کے ہاں اسے بطور دلیل پیش کر سکوں گا۔‘‘ ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے: ابوطالب کیا عبدالمطلب کا دین چھوڑ دو گے؟ رسول اللہ ﷺ اسے بار بار یہی کہتے رہے اور یہ دونوں بھی بار بار اپنی بات دہراتے رہے اور وہی بات پیش کرتے رہے۔ آخر ابو طالب کی زبان سے جو آخری کلمہ نکلا وہ یہی تھا کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب ہی پر قائم ہے اور اس نے لا اله الا اللہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں تمہارے لیے ضرور مغفرت طلب کرتا رہوں گا تاکہ مجھے اس سے روک نہ دیا جائے۔‘‘ پھر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’نبی اور اہل ایمان کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں۔‘‘ اور اللہ تعالٰی نے ابو طالب کے متعلق یہ آیت نازل کی اور رسول اللہ ﷺ سے فرمایا: ’’آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ تعالٰی ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔‘‘ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: أُو۟لِى ٱلْقُوَّةِ کا مطلب ہے کہ قارون کے خزانوں کی چابیوں کو طاقت ور مردوں کی ایک جماعت بھی نہیں اٹھا پاتی تھی۔ لَتَنُوٓأُ: بوجھل کر دیتی تھی، بوجھ سے جھکا دیتی تھی۔ فَـٰرِغًا کے معنی ہیں: حضرت موسٰی ؑ کی ماں کے دل میں موسٰی ؑ کے علاوہ اور کوئی خیال نہیں رہا تھا۔ ٱلْفَرِحِينَ: اترانے والے، مارے خوشی کے پھول جانے والے۔ قُصِّيهِ کے معنی ہیں: اس کے پیچھے پیچھے چلی جا۔ اور کبھی یہ لفظ قصہ اور کلام بیان کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ﴿نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ﴾ (یوسف:3) میں ہے، یعنی ہم تجھے بیان سناتے ہیں۔ عَن جُنُبٍ کے معنی بُعد کے ہیں، یعنی دور سے اور عن جنابة کے بھی یہی معنی ہیں کہ وہ پاکی سے دور ہو گیا، اسی طرح عن اجتناب کے معنی ہیں: وہ پرہیز کر گیا۔ نبطش از باب ضرب اور نبطش از باب نصر دونوں کے معنی گرفت کرنا ہیں۔ يَأْتَمِرُونَ کے معنی ہیں: باہم مشورہ کر رہے ہیں۔ العدوان، العداء اور التعدى کے ایک ہی معنی ہیں، یعنی زیادتی کرنا اور حد سے تجاوز کرنا۔ انس کے معنی ہیں: اس نے دیکھا۔ الجذوة: لکڑی کا وہ موٹا ٹکڑا جس کے سرے پر آگ لگی ہو لیکن اس میں شعلہ نہ ہو اور شہاب شعلے دار کو کہتے ہیں۔ الحيات، یعنی سانپوں کی مختلف اقسام، الجان: چھوٹا اور سفید سانپ۔ الأفاعي: بڑا سانپ اور الأساود: سیاہ ناگ کو کہتے ہیں۔ رِدْءًا کے معنی ہیں: مدد گار اور پشت پناہ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے يُصَدِّقُنِىٓ کے معنی کیے ہیں: وہ میری تصدیق کرے، یعنی میری بات کو کھول کر بیان کر دے۔ اس کے غیر نے کہا: سَنَشُدُّ کے معنی ہیں: ہم تیری مدد کریں گے۔ جب تم کسی کی مدد کرتے ہو تو گویا اس کا بازو بن جاتے ہو۔ ٱلْمَقْبُوحِينَ کے معنی ہیں: ہلاک شدہ۔ وَصَّلْنَا کے معنی ہیں: ہم نے اس کو بیان کیا اور پورا کیا۔ يُجْبَىٰٓ کے معنی ہیں: کھچے چلے آتے ہیں۔ بَطِرَتْ کے معنی ہیں: تکبر کیا اور شرارت کی۔ فِىٓ أُمِّهَا رَسُولًا سے مراد ام القریٰ، یعنی مکہ اور اس کے اطراف ہیں۔ تُكِنُّ کے معنی ہیں: تُخْفِى، یعنی پوشیدہ رکھتے ہیں۔ عرب لوگ کہتے ہیں: أكننت ’’میں نے اس کو چھپا لیا‘‘ اور كننت کے بھی یہی معنی ہیں۔ اس کے معنی ظاہر کرنا بھی ہیں، یعنی یہ لفظ اضداد سے ہے۔ وَيْكَأَنَّ ٱللَّـهَ بمعنی ألَم تَرَ أَن اللهَ ہے۔ ﴿يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ وَيَقْدِرُ﴾ کے معنی ہیں: جس کو چاہتا ہے فراخ روزی دیتا ہے اور جسے چاہتا تنگ روزی دیتا ہے۔