تشریح:
1۔ ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ﴾ضب کا شکار ہوئے۔ اب دیکھ لو جو انجام ان کا ہوا وہی انجام تمہارا ہو گا۔ تم پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے خطرے کے ظاہر ہونے سے پہلے پہلے ہوشیار کر دینے کے لیے قرآن اتارا ہے جو عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے لیے ہر پہلو سے آراستہ ہے لیکن افسوس کہ تم اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے عذاب کے طالب ہو اور اس کے لیے جلدی مچا رہے ہو۔ واللہ المستعان۔
2۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے چھ عنوانات کے تحت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک ہی حدیث بیان کی ہے، آپ کا دو باتوں پر تنبیہ کرنا مقصود ہے۔ ©۔ لفظ (مُدَّكِرٍ) کو دال کے ساتھ پڑھا جائے یہ لفظ ذال کے ساتھ نہیں ہے، چنانچہ آخری حدیث میں صراحت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذال کے ساتھ پڑھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصیح کردی۔ ©۔ قرآن کریم میں جو قصص و واقعات بیان ہوئے ہیں، انھیں سن کر فضا میں تحلیل نہ کر دیا جائے بلکہ ان سے عبرت حاصل کی جائے بصورت دیگر تمہارا انجام بھی پہلی قوموں جیسا ہوگا۔ واللہ اعلم۔