Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: The Sutra of the Imam is also a Sutra for those who are behind him)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
499.
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں جوانی کے قریب پہنچا ہوا تھا جب گدھی پر سوار ہو کر نماز کے لیے آیا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ منیٰ میں دیوار کے علاوہ (کسی اور سترے) کی طرف رخ کر کے لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ میں نمازیوں کی صف کے ایک حصے کے سامنے سے گزرا اور اتر گیا۔ پھر میں نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود نماز کی صف میں شامل ہو گیا لیکن کسی نے مجھ پر اس سلسلے میں کوئی اعتراض نہ کیا۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے آگے دیوار کے علاوہ کوئی اور سترہ تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نماز میں کھڑے لوگوں کے سامنے سے گزرے تو کسی نے اعتراض نہ کیا، کیونکہ وہ سب سترے کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، اس لیے کسی کے اعتراض کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، نفی جدار کا فائدہ تبھی ہے جب کسی دوسری چیزکا سترہ تسلیم کیا جائے بصورت دیگر یہ نفی لغو ٹھہرے گی، لیکن حافظ ابن حجر ؓ، جوتراجم سے احادیث کی مطابقت پیدا کرنے میں بڑے ماہر ہیں، اس مقام پر فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا استدلال محل نظر ہے، کیونکہ اس میں صراحت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ سترے کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، بلکہ امام بیہقی ؒ نے اس حدیث پربایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:’’سترے کے بغیر نماز پڑھنے کا بیان۔‘‘ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امام شافعی ؒ نے إلی غیر جدار کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سترے کے بغیر نماز پڑھ رہے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مزید لکھا ہے کہ ہم نے کتاب العلم میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے امام شافعی ؒ کے مؤقف کی تائید میں روایت بزار بھی ذکر کی تھی۔ (فتح الباري:739/1) مسند بزار ے حوالے سے حافظ ابن حجر ؒ نے مذکورہ روایت بایں الفاظ نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اورآپ کے آگے کوئی چیز بطور سترہ نہ تھی۔ (فتح الباري:226/1) 2۔ یہ سب باتیں اگرچہ بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہیں، لیکن اگرحدیث کے الفاظ پر غور کیا جائے تو امام بخاری ؒ کا مؤقف صحیح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ حدیث میں إلی غیر جدار کے الفاظ ہیں اور لفظ غیر ہمیشہ صفت کے لیے آتا ہے، اس لیے تقدیری عبارت یوں ہوگی:(يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار) یعنی رسول اللہ ﷺ منیٰ میں دیوار کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا رہے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کا عام معمول بھی یہی تھا کہ آپ جب کھلی فضا میں نماز پڑھاتے تو سترہ قائم فرمالیتے تھے، اس لیے حضرت ابن عباس ؓ کے الفاظ کا معمولات نبوی کے مطابق وہی مفہوم مراد لینا بہترہے جو امام بخاری ؒ نے سمجھاہے، نیز ابن عباس ؓ فرمارہے ہیں کہ میرے اس عمل پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ یہ بھی امام بخاری ؒ کی دلیل ہے کیونکہ جب سترہ قائم تھا تو کسی کے لیے اعتراض کا موقع ہی نہیں تھا۔ اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں:’’ اس حدیث کی عنوان سے بایں طور مطابقت ہے کہ إلی غیر جدار کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں سترہ تھا، کیونکہ غیر کا لفظ ہمیشہ صفت کے لیے آتا ہے۔ تقدیری عبارت یوں ہو گی کہ’’دیوار کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف‘‘ وہ چیز لاٹھی بھی ہوسکتی ہے، نیز بھی ہوسکتا ہے، ان کے علاوہ کوئی اور چیز بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ (عمدة القاری:569/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اس حدیث کے متعلق شرح تراجم بخاری میں یوں رقم طراز ہیں:’’اس عنوان سے امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔ اگر کوئی امام کےسترے کی موجودگی میں مقتدیوں کے آگے سےگزر جائے تو وہ گناہگار نہیں ہوگا۔ اور امام بخاری ؒ نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ امام شافعیؒ کا إلی غیر جدار کے معنی إلی غیر سترة کرنا صحیح نہیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے سامنے دیوار کے علاوہ کوئی اور سترہ تھا اگرچہ وہ نیزہ یا برچھا وغیرہ ہو، کیونکہ آپ کے احوال کے تتبع سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ صحرا وغیرہ میں نماز پڑھتے تو آپ کے سامنے نیزہ گاڑا جاتا تھا، اسی لیے حضرت ابن عباس ؓ کے استدلال میں اشکال پیداہوگیا ہے، کیونکہ کسی شخص کے انکار نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز سترے کی طرف تھی اور قوم کا سترہ وہی ہوتا ہے جو امام کاسترہ ہو۔ اس حدیث کا ظاہری مفہوم یہی ہے، اسے خوب سمجھ لو۔ یہ توجیہ بھی ممکن ہے کہ امام شافعی ؒ کے قول إلی غیر سترة سے مراد یہ ہوکہ دیوار کے سترے کے بغیر نماز پڑھی۔ اس سے مطلق سترے کی نفی نہیں۔ اس توجیہ سے امام شافعی اور دیگرمحدثین کے موقف میں کوئی اختلاف نہیں رہتا۔‘‘ واضح رہے کہ عربی زبان میں لفظ غیر اگرچہ نفی محض کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن اما م بخاری ؒ کے تصرف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں غیر بطور صفت استعمال ہواہے، اس معنی کی بنیاد پر دیوار کی نفی کا فائدہ ظاہر ہوتا ہے اور اگروہاں دیوانہ نہ تھی اور نہ کوئی دوسری چیز ہی تو دیوار کی نفی کرنا لغو ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مسند بزار کے حوالے سے جو حدیث بیان کی ہے، اس پر ہماری گزارشات پہلے گزر چکی ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
488
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
493
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
493
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
493
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تراجم کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اصول ہے کہ بعض اوقات اگر کوئی روایت دیگر کتب میں مروی ہو اور اس کا مضمون صحیح ہو تو اسے عنوان میں ذکر کر دیتے ہیں اور جن روایات کے مضامین صحیح نہ ہوں ان کی تردید فرماتے ہیں۔مذکورہ بالا عنوان بھی اسی قبیل سے ہے۔اس کے الفاظ ایک مرفوع روایت کے الفاظ ہیں جسے امام طبرانی نے(المعجم الاوسط 1/144حدیث 465) میں روایت کیا ہے لیکن سوید راوی کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوف طور پر مذکورہ الفاظ مروی ہیں جسے امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف (2/18)میں بیان کیا ہے بہر حال اس ضعیف روایت کا مضمون صحیح تھا اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تائید میں روایت پیش کی ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ دوران جماعت میں ہر شخص کو الگ الگ سترہ قائم کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ امام کے لیے جو سترہ قائم کیا گیا ہے وہی مقتدیوں کے لیے کافی ہوگا البتہ مالکی حضرات کچھ تفصیل کرتے ہیں کہ مقتدیوں کا سترہ خود امام ہے اور امام کا سترہ وہ چیز ہے جو امام کے سامنے قائم کی جائے۔یہ فرق اس صورت میں واضح ہو گا کہ اگر نماز سترے کے بغیر ہو رہی ہو اور کوئی امام کے آگے سے گزر جائے تو جو لوگ امام کے سترے ہی کو مقتدیوں کا سترہ قراردیتے ہیں ان کے نزدیک امام اور مقتدیوں کی نماز متاثر ہوگی اورجو لوگ خود امام کو مقتدی حضرات کے لیے سترہ کہتے ہیں ان کے نزدیک امام کے آگے سے گزرنا خود امام کے لیے ضرررساں ہوگا۔مقتدی حضرات کو اس کا کوئی نقصان نہیں ہوگا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام کا سترہ صرف امام ہی کا سترہ نہیں بلکہ مقتدیوں کا بھی سترہ ہے۔( فتح الباری:1/740۔)
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں جوانی کے قریب پہنچا ہوا تھا جب گدھی پر سوار ہو کر نماز کے لیے آیا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ منیٰ میں دیوار کے علاوہ (کسی اور سترے) کی طرف رخ کر کے لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ میں نمازیوں کی صف کے ایک حصے کے سامنے سے گزرا اور اتر گیا۔ پھر میں نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود نماز کی صف میں شامل ہو گیا لیکن کسی نے مجھ پر اس سلسلے میں کوئی اعتراض نہ کیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے آگے دیوار کے علاوہ کوئی اور سترہ تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نماز میں کھڑے لوگوں کے سامنے سے گزرے تو کسی نے اعتراض نہ کیا، کیونکہ وہ سب سترے کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، اس لیے کسی کے اعتراض کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، نفی جدار کا فائدہ تبھی ہے جب کسی دوسری چیزکا سترہ تسلیم کیا جائے بصورت دیگر یہ نفی لغو ٹھہرے گی، لیکن حافظ ابن حجر ؓ، جوتراجم سے احادیث کی مطابقت پیدا کرنے میں بڑے ماہر ہیں، اس مقام پر فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا استدلال محل نظر ہے، کیونکہ اس میں صراحت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ سترے کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، بلکہ امام بیہقی ؒ نے اس حدیث پربایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:’’سترے کے بغیر نماز پڑھنے کا بیان۔‘‘ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امام شافعی ؒ نے إلی غیر جدار کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سترے کے بغیر نماز پڑھ رہے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مزید لکھا ہے کہ ہم نے کتاب العلم میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے امام شافعی ؒ کے مؤقف کی تائید میں روایت بزار بھی ذکر کی تھی۔ (فتح الباري:739/1) مسند بزار ے حوالے سے حافظ ابن حجر ؒ نے مذکورہ روایت بایں الفاظ نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اورآپ کے آگے کوئی چیز بطور سترہ نہ تھی۔ (فتح الباري:226/1) 2۔ یہ سب باتیں اگرچہ بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہیں، لیکن اگرحدیث کے الفاظ پر غور کیا جائے تو امام بخاری ؒ کا مؤقف صحیح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ حدیث میں إلی غیر جدار کے الفاظ ہیں اور لفظ غیر ہمیشہ صفت کے لیے آتا ہے، اس لیے تقدیری عبارت یوں ہوگی:(يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار) یعنی رسول اللہ ﷺ منیٰ میں دیوار کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا رہے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کا عام معمول بھی یہی تھا کہ آپ جب کھلی فضا میں نماز پڑھاتے تو سترہ قائم فرمالیتے تھے، اس لیے حضرت ابن عباس ؓ کے الفاظ کا معمولات نبوی کے مطابق وہی مفہوم مراد لینا بہترہے جو امام بخاری ؒ نے سمجھاہے، نیز ابن عباس ؓ فرمارہے ہیں کہ میرے اس عمل پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ یہ بھی امام بخاری ؒ کی دلیل ہے کیونکہ جب سترہ قائم تھا تو کسی کے لیے اعتراض کا موقع ہی نہیں تھا۔ اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں:’’ اس حدیث کی عنوان سے بایں طور مطابقت ہے کہ إلی غیر جدار کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں سترہ تھا، کیونکہ غیر کا لفظ ہمیشہ صفت کے لیے آتا ہے۔ تقدیری عبارت یوں ہو گی کہ’’دیوار کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف‘‘ وہ چیز لاٹھی بھی ہوسکتی ہے، نیز بھی ہوسکتا ہے، ان کے علاوہ کوئی اور چیز بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ (عمدة القاری:569/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اس حدیث کے متعلق شرح تراجم بخاری میں یوں رقم طراز ہیں:’’اس عنوان سے امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔ اگر کوئی امام کےسترے کی موجودگی میں مقتدیوں کے آگے سےگزر جائے تو وہ گناہگار نہیں ہوگا۔ اور امام بخاری ؒ نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ امام شافعیؒ کا إلی غیر جدار کے معنی إلی غیر سترة کرنا صحیح نہیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے سامنے دیوار کے علاوہ کوئی اور سترہ تھا اگرچہ وہ نیزہ یا برچھا وغیرہ ہو، کیونکہ آپ کے احوال کے تتبع سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ صحرا وغیرہ میں نماز پڑھتے تو آپ کے سامنے نیزہ گاڑا جاتا تھا، اسی لیے حضرت ابن عباس ؓ کے استدلال میں اشکال پیداہوگیا ہے، کیونکہ کسی شخص کے انکار نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز سترے کی طرف تھی اور قوم کا سترہ وہی ہوتا ہے جو امام کاسترہ ہو۔ اس حدیث کا ظاہری مفہوم یہی ہے، اسے خوب سمجھ لو۔ یہ توجیہ بھی ممکن ہے کہ امام شافعی ؒ کے قول إلی غیر سترة سے مراد یہ ہوکہ دیوار کے سترے کے بغیر نماز پڑھی۔ اس سے مطلق سترے کی نفی نہیں۔ اس توجیہ سے امام شافعی اور دیگرمحدثین کے موقف میں کوئی اختلاف نہیں رہتا۔‘‘ واضح رہے کہ عربی زبان میں لفظ غیر اگرچہ نفی محض کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن اما م بخاری ؒ کے تصرف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں غیر بطور صفت استعمال ہواہے، اس معنی کی بنیاد پر دیوار کی نفی کا فائدہ ظاہر ہوتا ہے اور اگروہاں دیوانہ نہ تھی اور نہ کوئی دوسری چیز ہی تو دیوار کی نفی کرنا لغو ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مسند بزار کے حوالے سے جو حدیث بیان کی ہے، اس پر ہماری گزارشات پہلے گزر چکی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے کہ عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ میں ایک گدھی پر سوار ہو کر آیا۔ اس زمانہ میں بالغ ہونے والا تھا۔ رسول اللہ ﷺ منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ لیکن دیوار آپ ﷺ کے سامنے نہ تھی۔ میں صف کے بعض حصے سے گزر کر سواری سے اترا اور میں نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور صف میں داخل ہو گیا۔ پس کسی نے مجھ پر اعتراض نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
بظاہر اس حدیث سے باب کا مطلب نہیں نکلتا۔ چونکہ آنحضرت ﷺ کی عادت مبارکہ یہی تھی کہ میدان میں بغیرسترہ کے نماز نہ پڑھتے، اس لیے آپ ﷺ کے آگے برچھی گاڑی جاتی، تویقینا اس وقت بھی آپ ﷺ کے سامنے سترہ ضرور ہوگا۔ پس باب کا مطلب ثابت ہوگیا کہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔ علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں:''إلى غير جدار قال الشافعي إلى غير سترة وحينئذ فلا مطابقة بين الحديث والترجمة، وقد بوّب عليه البيهقي باب من صلّى إلى غير سترة، لكن استنبط بعضهم المطابقة من قوله إلى غير جدار لأن لفظ غير يشعر بأن ثمة سترة لأنها تقع دائمًا صفة، وتقديره إلى شيء غير جدار وهو أعمّ من أن يكون عصًا أو غير ذلك.''’’یعنی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں باب باندھا کہ یہ باب اس کے بارے میں ہے جو بغیرسترہ کے نماز پڑھے۔ لیکن اسی حدیث سے بعض علماءنے لفظ الی غیرجدار سے مطابقت پر استنباط کیاہے۔ لفظ غیربتلاتا ہے کہ وہاں دیوار کے علاوہ کسی اورچیز سے سترہ کیاگیاتھا۔ وہ چیز عصا تھی۔ یاکچھ اور بہرحال آپ کے سامنے سترہ موجود تھا جو دیوار کے علاوہ تھا۔‘‘ حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :'' قلت: حمل البخاري لفظ الغير على النعت، والبيهقي على النفي المحض، وما اختاره البخاري هنا أولى، فإن التعرض لنفى الجدار خاصة يدل على أنه كان هناك شيء مغاير للجدارالخ۔''(مرعاة، ج 1، ص: 515)’’خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہاں یہ ہے کہ آپ کے سامنے دیوار کے علاوہ کوئی اور چیز بطور سترہ تھی۔‘‘ حضرت الامام ؒ نے لفظ غیر کو یہاں بطور نعت سمجھا اور امام بیہقی ؒ نے اس سے نفی محض مراد لی، اورجو کچھ یہاں حضرت امام بخاری ؒ نے اختیار کیاہے وہی مناسب اوربہتر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا۔ اس وقت یہ بلوغ کے قریب تھے۔ وفات نبوی کے وقت ان کی عمر پندرہ سال کے لگ بھگ بتلائی گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): Once I came riding a she-ass when I had just attained the age of puberty. Allah's Apostle (ﷺ) was offering the prayer at Mina with no wall in front of him and I passed in front of some of the row. There I dismounted and let my she-ass loose to graze and entered the row and nobody objected to me about it.