تشریح:
1۔ کسی چیز کی حقیقت وماہیت معلوم کرنا ہو تو ما کے ذریعے سے سوال کیا جاتا ہے، حدیث میں حقیقت ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایک ایسی چیزوں کی تصدیق کے متعلق جن کا تعلق مغیبات سے ہے اور انھیں اصول ایمان کہا جاتا ہے بیان فرمایا۔ اس حدیث میں پانچ چیزیں بیان ہوئی ہیں۔ اللہ پرایمان۔ قیامت پر ایمان۔ فرشتوں پر ایمان۔ رسولوں پر ایمان۔ تقدیر پر ایمان۔ بعض روایات میں چھٹی چیز کتابوں پر ایمان کا بھی ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث(93)(8)۔) ان تمام اصول ایمان پر مکمل بحث ہم نے اپنی تالیف "مسئلہ ایمان وکفر" میں کی ہے۔
2۔ ارکان اسلام پانچ ہیں۔ (الف)۔ادائے شہادتین(توحید ورسالت کی گواہی)۔ (ب)۔ اقامت صلاۃ۔ (ج)۔ ایتائے زکاۃ۔ (د)۔ صوم رمضان۔ (س)۔ حج بیت اللہ۔ اس روایت میں اگرچہ حج کا ذکر نہیں ہے تاہم دیگر روایات میں اس کی صراحت موجود ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث(93)(8)۔) یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس وقت حج فرض نہیں ہوا تھا کیونکہ روایات میں اس بات کی وضاحت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں حاضر ہوئےتھے۔ (کتاب الإیمان، لإبن مندہ: 144/1(طبع دارالفضیلة) و فتح الباري: 159/1۔)
3۔ احسان کے معنی، عمل میں نکھار اور خوبصورتی ہیں۔ عمل میں نکھار اس وقت آتا ہے جب وہ ظاہر وباطن میں پوری طرح درست ہو۔ ظاہر میں عمل کے تمام آداب وشرائط داخل ہیں جبکہ باطن میں اخلاص نیت اور خشوع وخضوع شامل ہے۔ احسان کی تعریف میں اخلاص کے دو درجے بیان ہوئے ہیں۔ (الف) مشاہدہ:یہ اخلاص کااعلیٰ درجہ ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ کی عبادت بایں طور کی جائے گویا باری تعالیٰ نگاہوں کے سامنے ہے یعنی قلب ونظر اس طرف لگ جائیں۔ (ب)۔مراقبہ۔ عبادت گزار عبادت کرتے وقت یہ خیال کرے کہ اگر میں اللہ کو نہیں دیکھ سکتا تواللہ تعالیٰ مجھے ہر آن دیکھ رہا ہے، جس عابد کو یہ درجہ حاصل ہو جاتا ہے وہ بھی پورے اخلاص کے ساتھ اپنا اپنا کام کرتا ہے۔ (فتح الباري: 159/1۔)
4۔ بعض غالی قسم کے صوفیاء نے اپنے مذاق کے مطابق اس مقام پر ایک عجیب تاویل کی ہے کہ: ﴿فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ﴾ میں (كَانَ) تامہ ہے، معنی یہ ہیں کہ اگرتم اپنی ہستی فنا کرو اور(لَمْ تَكُنْ) بن جاؤ تو اللہ کو دیکھ سکتے ہو۔ یہ تاویل عقل ونقل کے لحاظ سے باطل بلکہ قواعد عربی سے نابلد ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ اس صورت میں تَرَاهُ کا الف جواب شرط ہونے کی بنا پر حذف ہونا چاہیے تھا جبکہ حدیث کے تما م طرق میں الف موجود ہے، پھر حدیث میں صراحت ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے تم اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتے۔ (صحیح مسلم، الفتن حدیث: 7356(2931)۔) اس سے معلوم ہوا کہ صوفیاء کے ہاں مقام مَحو وفنا خود ساختہ ہے۔ (فتح الباري: 160/1۔)
5۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں کو ایک ہی درجہ قراردیا ہے۔ ان کے نزدیک دوسرے جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نہیں دیکھ رہے ہو تو پھر بھی احسان پر قائم رہو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے۔ گویا دوسرا جملہ پہلے جملے کی علت ہے، یعنی دارومدار تمہارے دیکھنے پر نہیں بلکہ اللہ کے دیکھنے پر ہے۔ وہ تو بہرحال دیکھ ہی رہا ہے تم دیکھو یا نہ دیکھو، لہذا عبادت کو ہمیشہ اچھے طریقے سے کرنا چاہیے۔ (شرح نووي)
6۔ ’’لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی‘‘ شارحین نے اس کے کئی ایک مطالب بیان کیے ہیں۔ (الف)۔ والدین کی نافرمانی عام ہوجائے گی۔ اولاد والدین کو ذلیل و خوار کرکے، ان سے اس طرح کام لے گی جس طرح خاوند اپنی بیوی سے لیتا ہے بالخصوص بیٹی جو ماں سے بہت محبت کرتی ہے وہ بھی نافرمانی پر اتر آئے گی۔ آج اس کا اکثر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ (ب)۔ باندیوں کے بچے برسراقتدار آجائیں گے جن کے اخلاق وعادات اوراطوار فطری طورپر خراب ہوتے ہیں، یعنی اقتدار پر ایسے لوگ قابض ہوجائیں گے جو اس کے اہل نہیں ہوں گے بلکہ نالائق، درشت مزاج اور انصاف کے تقاضوں سے ناآشنا ہوں گے۔ (ج)۔ فتوحات زیادہ ہوں گی جس کے نتیجے میں لونڈیاں زیادہ آئیں گی اور وہ ام ولد بنیں گی گویا اپنے آقا کو جنم دینا ہے۔ اس تفسیر پر یہ علامت بالکل ابتدائی نشانی ہوئی کیونکہ فتوحات کی کثرت تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوچکی ہے۔ (د)۔ قرب قیامت کے وقت جہالت عام ہوگی جس کی بناپر ہر طرف بے عملی اور بے راہ روی کا دور دورہ ہوگا، معاملہ اس حد تک پہنچ جائے گا کہ ام ولد جس کی خرید وفروخت ناجائز ہے، کھلے عام فروخت ہوگی اور وہ فروخت ہوتے ہوتے ایسے آقا کے پاس پہنچ جائے گی جس کو اس نے جنم دیا ہوگا اور وہ لاشعوری طور پر اس کا مالک بن جائے گا۔ (فتح الباري: 162/1۔)
7۔ اس حدیث میں قیامت کی ایک علامت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ جب سیاہ فام سیاہ اونٹوں کے چرواہے عمارتوں پر فخر کرنے لگیں یا دست درازی کریں تو اس وقت قیامت قریب آ لگے گی۔ اونٹوں کے چرواہے کہنے کی وجہ یہ ہےکہ اونٹوں کے پاس رہنے سے انسان میں سنگدلی اور بدمزاجی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ وہ درشت خو اور کینہ پرور لوگ ہوں گے انھیں تہذیب وتمدن اور باہمی رواداری سے کوئی سروکار نہیں ہوگا، ایسےلوگ جب عمارتوں پر فخرکریں یا شہر کی عمارتوں پر دست درازی کریں یعنی انھیں مسمار کرکے نئی عمارتیں کھڑی کریں تو سمجھ لینا کہ اس عالم کی بساط الٹ دی جانے والی ہے۔
8۔ صحیح بخاری کی ہی ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے قریب حکومتی معاملات غیر مہذب، گنوار اور نالائق لوگوں کے سپرد ہوجائیں گے۔ (صحیح البخاري، کتاب التفسیر، حدیث 4777۔) ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب عنان اقتدار نالائق اور رذیل لوگ سنبھالیں گے جن میں علمی،عملی، اخلاقی اور سیاسی شعور نہ ہوگا توقیامت کے آنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 59۔) اس علامت کا تو آج مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ آج کل اقتدار پر کس قسم کے لوگ قابض ہیں۔ (فتح الباري: 164/1۔)
9۔ پانچ چیزوں کے متعلق اللہ کے سوا اورکوئی نہیں جانتا، یعنی قیامت کا آنا، بارش کا آنا، رحم مادر میں کیا ہے کل کیا ہوگا اور کہاں موت آئے گی؟ انھیں مفاتیح الغیب قراردیا گیا ہے، یعنی علم غیب تو درکنار علم غیب کی کنجیاں بھی کسی کو معلوم نہیں جن کے ذریعے سے علوم تک پہنچا جاسکے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق علم غیب کا دعویٰ کرتے ہیں وہ کس قدر ضلالت اور گمراہی میں ہیں۔ ہاں بذریعہ وحی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کی خبر دے دیں تو یہ نبی کا منصب ہے۔ اسے غیب کا علم جاننا نہیں کہا جا سکتا۔
10۔ آخر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بیان کر تے ہیں کہ ایمان، اسلام، احسان اور علامات قیامت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین سے تعبیر فرمایا ہے اور اس کا نام ایمان کامل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ مرکب ہے اور اس میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ واللہ أعلم۔