قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الإِيمَانِ (بَابُ سُؤَالِ جِبْرِيلَ النَّبِيَّ ﷺ عَنِ الإِيمَانِ، وَالإِسْلاَمِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَبَيَانِ النَّبِيِّ ﷺ لَهُ، ثُمَّ قَالَ: «جَاءَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ» فَجَعَلَ ذَلِكَ كُلَّهُ دِينًا، وَمَا بَيَّنَ النَّبِيُّ ﷺ لِوَفْدِ عَبْدِ القَيْسِ مِنَ الإِيمَانِ، وَقَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ﴾ [آل عمران: 85]

50. حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَارِزًا يَوْمًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: مَا الإِيمَانُ؟ قَالَ: «الإِيمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَبِلِقَائِهِ، وَرُسُلِهِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ». قَالَ: مَا الإِسْلاَمُ؟ قَالَ: الإِسْلاَمُ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ، وَلاَ تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمَ الصَّلاَةَ، وَتُؤَدِّيَ الزَّكَاةَ المَفْرُوضَةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ . قَالَ: مَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ»، قَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا المَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَسَأُخْبِرُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا: إِذَا وَلَدَتِ الأَمَةُ رَبَّهَا، وَإِذَا تَطَاوَلَ رُعَاةُ الإِبِلِ البُهْمُ فِي البُنْيَانِ، فِي خَمْسٍ لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ثُمَّ تَلاَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ﴿إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ﴾ [لقمان: 34] الآيَةَ، ثُمَّ أَدْبَرَ فَقَالَ: «رُدُّوهُ» فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا، فَقَالَ: «هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَ يُعَلِّمُ النَّاسَ دِينَهُمْ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: جَعَلَ ذَلِكَ كُلَّهُ مِنَ الإِيمَانِ.

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اس کے جواب میں نبی کریم ﷺ کا بیان فرمانا پھر آخر میں آپ نے فرمایا کہ یہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو تم کو دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔ یہاں آپ نے ان تمام باتوں کو ( جو جبرئیل علیہ السلام کے سامنے بیان کی گئی تھیں ) دین ہی قرار دیا اور ان باتوں کے بیان میں جو آنحضرت ﷺ نے ایمان سے متعلق عبدالقیس کے وفد کے سامنے بیان فرمائی تھی اور اللہ پاک کے اس ارشاد کی تفصیل میں کہ ’’جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین اختیار کرے گا وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔‘‘اس آیت شریفہ میں بھی ا سلام کو لفظ دین سے تعبیر کیا گیا ہے۔

50.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ لوگوں کے سامنے تشریف فرما  تھے کہ اچانک ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا: ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر اور روز حشر اللہ کے حضور پیش ہونے پر، اور اللہ کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور قیامت کا یقین کرو۔‘‘ اس نے مزید سوال کیا: اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ تم محض اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ نماز ٹھیک طور پر ادا کرو اور فرض زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔‘‘ پھر اس نے پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو، تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس نے کہا: قیامت کب برپا ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ’’جس سے سوال کیا گیا ہے وہ بھی سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، البتہ میں تمہیں قیامت برپا ہونے کی کچھ نشانیاں بتائے دیتا ہوں: جب لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اور جب اونٹوں کے غیر معروف سیاہ فام چرواہے فلک بوس عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جائیں گے (تو قیامت قریب ہو گی)۔ دراصل قیامت ان پانچ باتوں میں سے ہے جن کو اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔‘‘ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’بےشک اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ شخص واپس چلا گیا، تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے میرے پاس لاؤ۔‘‘ چنانچہ لوگوں نے اسے تلاش کیا لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ جبریل تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا: ’’رسول اللہ ﷺ نے ان تمام چیزوں کو ایمان قرار دیا ہے۔‘‘