1۔ ان د ونوں روایات سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ، حضرت سلمہ بن اکوع ؓ اور دیگرکبار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ستونوں کو بطور سترہ استعمال کرتے تھے۔ پہلی روایت میں ہے کہ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ اس ستون کے پاس نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے جس کے نزدیک قرآن مجید رکھا رہتا تھا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ وہ صندوق کے پیچھے نماز پڑھتے۔ اس کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا ایک نسخہ صندوق میں بند کر کے مسجد نبوی کے ایک ستون کے پاس رکھا رہتا تھا۔ اس ستون کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: مصحف شریف کے لیے ایک صندوق تھا جس میں وہ (حضرت عثمان ؓ کے وقت سے) رکھا جاتا تھا۔ چونکہ اس کے لیے ایک خاص جگہ مقررتھی، اس لیے اس سے اسطوانہ کی تعیین کی گئی۔ اس ستون کے متعلق ہمارے بعض مشائخ نےہمیں تحقیقی طور پر بتایا ہے کہ وہ روضہ مکرمہ کے درمیان میں ہے اور اسطوانہ مہاجرین کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ اگر لوگ اس کو پہچان لیتے تو قرعہ اندازی کے ذریعے سے اس کا قرب تلاش کرتے۔ آپ نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو راز کے طور پر بتایا تھا تو وہ اس کے پاس بکثرت نمازیں پڑھا کرتے تھے، پھر میں نے ابن نجار کی تاریخ مدینہ میں بھی یہ بات دیکھی۔ اس میں یہ بھی ہے کہ مہاجرین قریش اس ستون کے پاس جمع ہوا کرتے تھے۔ اور اس سے پہلے محمد بن حسن نے بھی اخبار مدینہ میں ایسا ہی رواج کیا ہے۔ (فتح الباري:446/1)
2۔ مسجد نبوی میں ایک ایسا مقام ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ قراردیا ہے۔ اس میں چند ایک ستون ہیں، مثلاً: 1۔ اُسطوانہ علم مصلی نبوی۔ 2۔ اُسطوانہ عائشہ۔ 3۔ اسطوانہ توبہ۔ 4۔ اسطوانہ سریر۔ 5۔ اسطوانہ علی۔ 6۔ اسطوانہ وفود۔ ہم ذیل میں صرف دو ستونوں کا ذکر کرتے ہیں جن کا تعلق حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کی روایت اور حافظ ابن حجر ؒ کی مذکورہ وضاحت سے ہے:
©۔ اسطوانہ علم مصلیٰ نبوی: یہ ستون، حضرت عائشہ ؓ کی طرف منسوب ستون سے متصل مغربی جانب ہے۔ صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث سلمہ میں اسی ستون کا ذکر ہے۔ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ اسی کو تلاش کرکے اس کے پاس نماز پڑھتے تھے۔ جب ان سے وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا:’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو بھی اسی طرح اس جگہ کو تلاش کرتے اور اس جگہ نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہاں آخر دم تک نماز پڑھائی۔‘‘ حضرت عثمان ؓ کے عہد خلافت میں مصحف شریف جس صندوق میں رکھا گیا تھا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے، وہ اسطوانے سے دائیں جانب تھا۔
©۔ اسطوانہ عائشہ:۔ یہ ستون، روضۃ من ریاض الجنۃ کے درمیان ہے۔ اس پر سنہرے حروف میں اس کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔ اس کو اسطوانہ مہاجرین، اسطوانہ قرعہ اوراسطوانہ مخلقہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے تحویل قبلہ کے بعد چند روز تک اس کے پاس نماز پڑھائی تھی، پھر اپنے مصلی پر آخر وقت تک نماز پڑھاتے رہے۔ اور رسول اللہ ﷺ اس پر ٹیک لگا کر شمال کی طرف منہ کرکے بیٹھا کرتے تھے۔ چونکہ عائشہ ؓ نے اس کی تعین کی تھی، اس لیے اسطوانہ عائشہ کے نام سے مشہور ہوا۔
وضاحت:۔ رسول اللہ ﷺ کا پہلا مصلیٰ مسجد نبوی کے شمال میں تھا جبکہ آپ نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی۔ دوسرا مصلیٰ اسطوانہ عائشہ کے پاس تھا جہاں آپ نے تحویل قبلہ کے بعد چند روز تک نماز پڑھائی۔ تیسرا مصلیٰ اسطوانہ عائشہ ؓ سے متصل مغربی جانب اسطوانہ علم مصلیٰ کے پاس تھا جو آخر عمرتک رہا۔ مصلیٰ منبر نبوی اور مصلیٰ نبوی کا درمیانی فاصلہ 14 ذراع اور ایک بالشت ہے۔ (وفاء الوفاء:267/1) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جس ستون کے پاس مصحف شریف رکھا گیا تھا، وہ اسطوانہ مہاجرین نہیں بلکہ اسطوانہ علم مصلیٰ نبوی ہے۔ یہ بات حافظ ابن حجر ؒ کی بیا ن کردہ تحقیق کے خلاف ہے۔ واللہ أعلم۔