تشریح:
(1) احادیث کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ مذکورہ تینوں چیزین ہی منحوس ہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ اگر نحوست کا وجود ہے تو وہ ان تین چیزوں میں ہو سکتی ہے وہ بھی تمام میں نہیں بلکہ کچھ میں ہوتی ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نیک عورت، اچھا مکان اور بہترین سواری کا میسر آنا ابن آدم کی نیک بختی اور بری عورت، گندا مکان، ناکارہ سواری کا ہونا ابن آدم کی بدبختی ہے۔‘‘ (مسند أحمد: 168/1) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین چیزیں منحوس ہیں: ایک عورت، جسے تو دیکھے تو وہ تجھے بری لگے اور تجھ سے بد زبانی کرے، دوسرا سست گھوڑا، اگر تو اسے مارے تو تجھے مشقت اٹھانا پڑے اور اگر اسے کچھ نہ کہے تو تجھے ساتھیوں تک نہ پہنچا سکے، تیسرا وہ مکان جو تنگ و تاریک ہو جس میں تجھے نفع بہت کم ہو۔‘‘ (المستدرك للحاكم: 162/2، و سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني، حديث: 1047)
(2) دراصل شوم کے دو معنی ہیں: ایک نحوست اور اس کا بے برکت ہونا اور دوسرے طبیعت پر کسی چیز کا ناگوار ہونا اور اس کا قابل نفرت ہونا۔ جن روایات میں شوم کی نفی ہے اس سے مراد پہلے معنی ہیں اور جن میں اثبات ہے اس سے مراد دوسرے معنی ہیں۔ ان احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری بہترین رہنمائی فرمائی ہے کہ اگر انسان کسی مکان میں سکونت کو اچھا نہیں سمجھتا کیونکہ وہ تنگ و تاریک ہے تو وہاں سے نقل مکانی کر لے اور اگر عورت بد خلق اور بانجھ ہے اس کے ساتھ مباشرت بے سود ہے تو اسے طلاق دے دے اور اگر گھوڑا اڑیل یا سست رفتار ہے تو اسے فروخت کردے اور خود سے پریشانی کو دور کرے۔ والله اعلم