تشریح:
(1) حضرت بریرہ رضی اللہ عنہما کو جب آزادی ملی تو انھیں اختیار دیا گیا کہ اگر چاہیں تو اپنے شوہر سے اپنا نکاح فسخ کرسکتی ہیں اور اگر چاہیں تو اس کے ہاں رہ سکتی ہیں۔ یہ اختیار اس بنا پر دیا گیا کہ آزادی کے وقت ان کا شوہر غلام تھا جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحيح البخاري، الطلاق، حديث: 5282) جب حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا گیا تو انھوں نے اپنے خاوند مغیث سے علیحدگی کو اختیار کیا، وہ گلی کوچوں میں ان کے پیچھے روتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارش فرمائی: ’’تم اسے خاوند کی حیثیت سے قبول کرلو۔‘‘ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اگر آپ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر، اگر سفارش ہے تو میں معذرت کرتی ہوں۔ آپ نے اس کا برا نہ منایا۔ (صحيح البخاري، الطلاق، حديث: 5283) اگر آزاد عورت کا غلام کے نکاح میں رہنا ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی سفارش کیوں فرماتے؟
(2) اس سفارش سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ آزاد عورت کا غلام کے نکاح میں رہنا جائز ہے۔ اس کی تفصیل ہم کتاب الطلاق میں بیان کریں گے۔ بإذن الله تعاليٰ