Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: About (marrying) several women)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5107.
حضرت عطاء سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم ام المومنین سیدنا میمونہ ؓ کے جنازے میں سیدنا ابن عباس ؓ کے ہمراہ تھے جو مقام سرف میں پڑھا گیا۔ سیدنا ابن عباس ؓ نے فرمایا: یہ نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں تم جب ان کا جنازہ اٹھاؤ تو اسے جھٹکے نہ دینا اور نہ زور، زور سے حرکت دینا بلکہ آہستہ آہستہ نرمی سے لے کر چلو، بلاشبہ نبی ﷺ کے پاس (وفات کے وقت) نو بیویاں تھیں، ان میں سے آٹھ کے لیے تو آپ نے باری مقرر کر رکھی تھی لیکن ایک باری نہیں تھی۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام سرف پر حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے نکاح کیا تھا اور اسی مقام پر ان کی وفات ہوئی۔ یہ مقام مکہ مکرمہ سے اٹھارہ میل کے فاصلے پر ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیک وقت نو(9) بیویاں تھیں، ان میں سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہما کی بڑھاپے کی وجہ سے باری مقرر نہ تھی بلکہ انھوں نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو دے دی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازاوج مطہرات کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان کی زندگی اور موت کے بعد تکریم و تعظیم میں فرق نہیں آنا چاہیے۔ بیک وقت نو (9) بیویاں رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔ وہ اہل ایمان کی مائیں قرار دی گئیں اور آپ کے بعد ان سے نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا۔ امت کے افراد کو بیک وقت صرف چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔ وہ بھی عدل و انصاف کے ساتھ مشروط ہے۔ قرآن کریم نے وضاحت کی ہے کہ اگر عدل و انصاف نہ کرنے کا اندیشہ ہو تو ایک بیوی پر اکتفا کیا جائے۔ (النساء:3) (3) تعدد ازواج کے سلسلے میں ہم افراط و تفریط کا شکار ہیں، چنانچہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام میں تعدد ازواج کی کوئی حد مقرر نہیں اور قرآن کریم میں جو دو، دو، تین تین اور چار چار کے الفاظ آئے ہیں وہ بطور محاورہ ہیں لیکن یہ موقف دو لحاظ سے غلط ہے: ایک یہ کہ اگر اجازت عام ہوتی تو صرف یہ الفاظ کافی تھے: ’’دوسری عورتوں سے شادی کر لو جو تمھیں پسند ہوں۔‘‘ چار تک تعین کرنے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ دوسرے یہ کہ سنت نے چار تک حد مقرر کر دی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے تو ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان میں سے چار کا انتخاب کرلو۔‘‘ (سنن ابن ماجة، النکاح، حدیث: 1953) حدیث کی وضاحت کے بعد کسی مسلمان کا شیوہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری بات کرے۔ اس سلسلے میں تفریق یہ ہے کہ صرف ایک عورت سے شادی کی جائے۔ ان لوگوں کے ہاں تعدد ازواج کی اجازت ہنگامی اور جنگی حالات میں تھی، یہ حضرات مغربی تہذیب سے مرعوب ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر تمھیں خدشہ ہو کہ ان میں انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔‘‘ (النساء: 129) پھر اس سورت میں ہے: ’’اگر تم چاہو بھی کہ اپنی بیویوں کے ساتھ انصاف کرو تو تم ایسا نہ کرسکو گے۔‘‘ (سورۃ النساء) گویا پہلے تعدد ازواج کی جو مشروط اجازت دی گئی تھی اسے آئندہ آیت سے ختم کر دیا گیا۔ یہ استدلال اس لیے غلط ہے کہ مذکورہ آیت میں مذکور ہے: ’’لہٰذا اتنا تو کرو کہ بالکل ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ اور دوسری کو لٹکتا ہوا چھوڑ دو۔‘‘ اور جن باتوں کی طرف عدم انصاف کا اشارہ ہے اس سے مراد وہ امور ہیں جو انسان کے اختیار میں نہیں اور انصاف کا مطالبہ صرف ان باتوں میں ہے جو اس کے اختیار میں ہیں جیسے نان و نفقہ، اس کی ضروریات کا خیال رکھنا اور شب بسری کے سلسلے میں باری مقرر کرنا وغیرہ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے: ’’یا اللہ! جن باتوں میں مجھے اختیار ہے ان میں سب بیویوں سے ایک جیسا سلوک کرتا ہوں اور جو باتیں میرے اختیار میں نہیں تو وہ مجھے معاف فرما دے۔‘‘ (سنن أبي داود، النکاح، حدیث: 2134) امام ابو داود رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے کہ قلبی تعلقات میں انسان بے اختیار ہوتا ہے۔ والله اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4870
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5067
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5067
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5067
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو اس وقت آپ کی نو بیویاں تھیں ۔دعوت وتبلیغ کے پیش نظر آپ نے اتنی عورتوں سے نکاح کیا۔یہ آپ کی خصوصیت ہے۔ایک آدمی بیک وقت زیادہ سے زیادہ چار بیویاں اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے جیسا کہ قرآن وحدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
حضرت عطاء سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم ام المومنین سیدنا میمونہ ؓ کے جنازے میں سیدنا ابن عباس ؓ کے ہمراہ تھے جو مقام سرف میں پڑھا گیا۔ سیدنا ابن عباس ؓ نے فرمایا: یہ نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں تم جب ان کا جنازہ اٹھاؤ تو اسے جھٹکے نہ دینا اور نہ زور، زور سے حرکت دینا بلکہ آہستہ آہستہ نرمی سے لے کر چلو، بلاشبہ نبی ﷺ کے پاس (وفات کے وقت) نو بیویاں تھیں، ان میں سے آٹھ کے لیے تو آپ نے باری مقرر کر رکھی تھی لیکن ایک باری نہیں تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام سرف پر حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے نکاح کیا تھا اور اسی مقام پر ان کی وفات ہوئی۔ یہ مقام مکہ مکرمہ سے اٹھارہ میل کے فاصلے پر ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیک وقت نو(9) بیویاں تھیں، ان میں سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہما کی بڑھاپے کی وجہ سے باری مقرر نہ تھی بلکہ انھوں نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو دے دی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازاوج مطہرات کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان کی زندگی اور موت کے بعد تکریم و تعظیم میں فرق نہیں آنا چاہیے۔ بیک وقت نو (9) بیویاں رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔ وہ اہل ایمان کی مائیں قرار دی گئیں اور آپ کے بعد ان سے نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا۔ امت کے افراد کو بیک وقت صرف چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔ وہ بھی عدل و انصاف کے ساتھ مشروط ہے۔ قرآن کریم نے وضاحت کی ہے کہ اگر عدل و انصاف نہ کرنے کا اندیشہ ہو تو ایک بیوی پر اکتفا کیا جائے۔ (النساء:3) (3) تعدد ازواج کے سلسلے میں ہم افراط و تفریط کا شکار ہیں، چنانچہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام میں تعدد ازواج کی کوئی حد مقرر نہیں اور قرآن کریم میں جو دو، دو، تین تین اور چار چار کے الفاظ آئے ہیں وہ بطور محاورہ ہیں لیکن یہ موقف دو لحاظ سے غلط ہے: ایک یہ کہ اگر اجازت عام ہوتی تو صرف یہ الفاظ کافی تھے: ’’دوسری عورتوں سے شادی کر لو جو تمھیں پسند ہوں۔‘‘ چار تک تعین کرنے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ دوسرے یہ کہ سنت نے چار تک حد مقرر کر دی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے تو ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان میں سے چار کا انتخاب کرلو۔‘‘ (سنن ابن ماجة، النکاح، حدیث: 1953) حدیث کی وضاحت کے بعد کسی مسلمان کا شیوہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری بات کرے۔ اس سلسلے میں تفریق یہ ہے کہ صرف ایک عورت سے شادی کی جائے۔ ان لوگوں کے ہاں تعدد ازواج کی اجازت ہنگامی اور جنگی حالات میں تھی، یہ حضرات مغربی تہذیب سے مرعوب ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر تمھیں خدشہ ہو کہ ان میں انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔‘‘ (النساء: 129) پھر اس سورت میں ہے: ’’اگر تم چاہو بھی کہ اپنی بیویوں کے ساتھ انصاف کرو تو تم ایسا نہ کرسکو گے۔‘‘ (سورۃ النساء) گویا پہلے تعدد ازواج کی جو مشروط اجازت دی گئی تھی اسے آئندہ آیت سے ختم کر دیا گیا۔ یہ استدلال اس لیے غلط ہے کہ مذکورہ آیت میں مذکور ہے: ’’لہٰذا اتنا تو کرو کہ بالکل ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ اور دوسری کو لٹکتا ہوا چھوڑ دو۔‘‘ اور جن باتوں کی طرف عدم انصاف کا اشارہ ہے اس سے مراد وہ امور ہیں جو انسان کے اختیار میں نہیں اور انصاف کا مطالبہ صرف ان باتوں میں ہے جو اس کے اختیار میں ہیں جیسے نان و نفقہ، اس کی ضروریات کا خیال رکھنا اور شب بسری کے سلسلے میں باری مقرر کرنا وغیرہ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے: ’’یا اللہ! جن باتوں میں مجھے اختیار ہے ان میں سب بیویوں سے ایک جیسا سلوک کرتا ہوں اور جو باتیں میرے اختیار میں نہیں تو وہ مجھے معاف فرما دے۔‘‘ (سنن أبي داود، النکاح، حدیث: 2134) امام ابو داود رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے کہ قلبی تعلقات میں انسان بے اختیار ہوتا ہے۔ والله اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطا بن ابی رباح نے خبر دی کہا کہ ہم ابن عباس ؓ کے ساتھ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے جنا زہ میں شریک تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں جب تم ان کا جنازہ اٹھاؤ تو زور زور سے حرکت نہ دینا بلکہ آہستہ آہستہ نرمی کے ساتھ جنازہ کو لے کر چلنا۔ نبی کریم ﷺ کے پاس آپ کی وفات کے وقت آپ کے نکاح میں نو بیویاں تھیں آٹھ کے لئے تو آپ نے باری مقرر کر رکھی تھی لیکن ایک کی باری نہیں تھی۔
حدیث حاشیہ:
بیک وقت نو بیویوں کا رکھنا یہ خصائص نبوی میں سے ہے، امت کو صرف چار تک کی اجازت ہے جن کی باری مقرر نہیں تھی ان سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا مراد ہیں، انہوں نے بڑھاپے کی وجہ سے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ata (RA) : We presented ourselves along with Ibn 'Abbas (RA) at the funeral procession of Maimuna at a place called Sarif. Ibn 'Abbas (RA) said, "This is the wife of the Prophet (ﷺ) so when you lift her bier, do not Jerk it or shake it much, but walk smoothly because the Prophet (ﷺ) had nine wives and he used to observe the night turns with eight of them, and for one of them there was no night turn."