صحیح بخاری
67. کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
7. باب: کسی شخص کا اپنے بھائی سے یہ کہنا کہ تم میری جس بیوی کو بھی پسند کر لو میں اسے تمہارے لیے طلاق دے دوں گا۔
باب: کسی شخص کا اپنے بھائی سے یہ کہنا کہ تم میری جس بیوی کو بھی پسند کر لو میں اسے تمہارے لیے طلاق دے دوں گا۔
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: The saying of a man to his brother (in Islam))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو عبدالرحمٰن بن عوف نے بھی روایت کیا ہے۔
5112.
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب عبدالرحمن بن عوف ؓ (مدینہ طیبہ) آئے تو نبی ﷺ نے ان کے اور سیدنا سعد بن ربیع انصاری ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کر دیا۔ انصاری کی دو بیویاں تھیں۔ انہوں نے بیویوں میں سے ایک اور مال میں نصف دینے کی انہیں پیش کش کی۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی تمہارے اہل و عیال اور مال و متاع میں برکت فرمائے! آپ مجھے بازار کا راستہ بتا دیں، چنانچہ وہ بازار گئے اور وہاں سے کچھ گھی اور کچھ پنیر کی خرید ق فروخت کی اور نفع حاصل کیا۔ نبی ﷺ نے چند دنوں کے بعد سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ کو دیکھا کو ان پر زعفران کی زردی لگی ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”عبدالرحمن! یہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کرلی ہے۔ آپ نے پوچھا : ”ا سے مہر میں کیا دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: گھٹلی بھر سونا۔ آپ نے فرمایا : ”ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری کا ہو۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ انصار میں کس قدر ایثار وہمدردی کے جذبات تھے! انھوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنی بیویوں تک کی پیش کش کر دی کہ جو بیوی تمھیں پسند ہو میں اسے طلاق دیتا ہوں، عدت ختم ہونے کے بعد آپ اس سے نکاح کر لیں۔ لیکن مہاجرین کی خود داری اور عزت نفس بھی قابل تعریف ہے کہ انھوں نے اس پیش کش کی طرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ بازار کا راستہ اختیار کیا تاکہ محنت مزدوری کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے نکاح کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو زردی لگنے کی وجہ یہ تھی کہ عورتوں کی خوشبو میں زعفران ہوتا تھا، اس بنا پر عورتوں کی خوشبو رنگدار ہوتی تھی۔ بیوی کے اختلاط سے تازہ خوشبو ان کے کپڑوں کو لگ گئی، انھوں نے جان بوجھ کر زعفرانی رنگ استعمال نہیں کیا تھا۔ والله اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4875
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5072
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5072
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5072
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئے تو حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کا بھائی چارہ قائم کردیا گیا۔انھوں نے اپنا نصف مال دینے کی پیش کش کی،مزید کہا: میری دو بیویاں ہیں: ان میں سے جو آپ کو پسند ہو،آپ اس کا انتخاب کریں۔میں اسے طلاق دے دیتا ہوں۔جب اس کی عدت گزر جائے تو آپ اس سے نکاح کرلیں لیکن حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے خیرو برکت کی دعا کرتے ہوئے اس پیش کش کو قبول نہ فرمایا۔(صحیح البخاری، المناقب، حدیث: 3780)
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب عبدالرحمن بن عوف ؓ (مدینہ طیبہ) آئے تو نبی ﷺ نے ان کے اور سیدنا سعد بن ربیع انصاری ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کر دیا۔ انصاری کی دو بیویاں تھیں۔ انہوں نے بیویوں میں سے ایک اور مال میں نصف دینے کی انہیں پیش کش کی۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی تمہارے اہل و عیال اور مال و متاع میں برکت فرمائے! آپ مجھے بازار کا راستہ بتا دیں، چنانچہ وہ بازار گئے اور وہاں سے کچھ گھی اور کچھ پنیر کی خرید ق فروخت کی اور نفع حاصل کیا۔ نبی ﷺ نے چند دنوں کے بعد سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ کو دیکھا کو ان پر زعفران کی زردی لگی ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”عبدالرحمن! یہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کرلی ہے۔ آپ نے پوچھا : ”ا سے مہر میں کیا دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: گھٹلی بھر سونا۔ آپ نے فرمایا : ”ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری کا ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ انصار میں کس قدر ایثار وہمدردی کے جذبات تھے! انھوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنی بیویوں تک کی پیش کش کر دی کہ جو بیوی تمھیں پسند ہو میں اسے طلاق دیتا ہوں، عدت ختم ہونے کے بعد آپ اس سے نکاح کر لیں۔ لیکن مہاجرین کی خود داری اور عزت نفس بھی قابل تعریف ہے کہ انھوں نے اس پیش کش کی طرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ بازار کا راستہ اختیار کیا تاکہ محنت مزدوری کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے نکاح کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو زردی لگنے کی وجہ یہ تھی کہ عورتوں کی خوشبو میں زعفران ہوتا تھا، اس بنا پر عورتوں کی خوشبو رنگدار ہوتی تھی۔ بیوی کے اختلاط سے تازہ خوشبو ان کے کپڑوں کو لگ گئی، انھوں نے جان بوجھ کر زعفرانی رنگ استعمال نہیں کیا تھا۔ والله اعلم
ترجمۃ الباب:
یہ روایت حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓنے بیان کی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے حمید طویل نے بیان کیا کہ میں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے سنا، بیان کیا کہ عبد الرحمٰن بن عوف ؓ (ہجرت کر کے مدینہ) آئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کے اور سعد بن ربیع انصاری ؓ کے درمیان بھائی چارہ کرایا۔ سعد انصاری ؓ کے نکاح میں دو بیویاں تھیں۔ انہوں نے عبد الرحمٰن ؓ سے کہا کہ وہ ان کے اہل (بیوی) اور مال میں سے آدھا لیں۔ اس پر عبد الر حمن نے کہا کہ اللہ تعا لیٰ آپ کے اہل اور آپ کے مال میں برکت دے، مجھے تو بازار کا راستہ بتا دو۔ چنانچہ آپ بازار آئے اور یہاں آپ نے کچھ پنیر اور کچھ گھی کی تجارت کی اور نفع کمایا۔ چند دنوں کے بعد ان پر زعفران کی زردی لگی ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ عبدالرحمن یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے ایک انصار ی خاتون سے شادی کرلی ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ انہیں مہر میں کیا دیا عرض کیا کہ ایک گٹھلی برابر سونا دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر ولیمہ کر اگر چہ ایک بکری ہی کا ہو۔
حدیث حاشیہ:
ولیمہ سنت نبوی ہے جو عورت سے ملاپ کے بعد کیا جانا چاہئے مگر افسوس کہ آج کل مسلمانوں نے عام طور پر إلا ماشاءاللہ اسے بھی ترک کر دیا ہے۔ زردی لگنے کی وجہ یہ تھی کہ عورتوں کی خوشبو میں زعفران پڑتا تھا اس وجہ سے وہ رنگ دارہوا کرتی تھی۔ چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ مردوں کی خوشبو میں رنگ نہ ہو عورتوں کی خوشبو میں تیز بو نہ ہو۔ اسی لئے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بعد نکاح جب دلہن سے اختلاط کیا تو زوجہ کی تازہ خوشبو کہیں ان کے کپڑے میں لگ گئی۔ یہ نہیں کہ قصداً زعفران لگا یا ہو جس سے مردوں کے حق میں نہیں آئی ہے اور دولہا کو کیسری لباس پہنانے کا دستور جو بعض بت پرست اقوام میں ہے اس کا عرب میں نام و نشان بھی نہ تھا۔ پس یہ وہی زعفرانی رنگ تھا جو دلہن کے کپڑوں سے ان کے کپڑوں میں لگ گیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو ولیمہ کرنے کا حکم فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ دولہا کو ولیمہ کی دعوت کرنا سنت ہے، مگرصد افسوس کہ بیشتر مسلمانوں سے یہ سنت بھی متروک ہوتی جا رہی ہے اور بیاہ شادی میں قسم قسم کی شرکیہ بدعیہ شکلیں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو اپنے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے اور ہماری لغزشوں کو معاف کرے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): 'Abdur-Rahman bin 'Auf came (from Makkah to Medina) and the Prophet (ﷺ) made a bond of brotherhood between him and Sad bin Ar-Rabi' Al-Ansari. Al-Ansari had two wives, so he suggested that 'Abdur-Rahman take half, his wives and property. 'Abdur-Rahman replied, "May Allah bless you with your wives and property. Kindly show me the market." So 'Abdur-Rahman went to the market and gained (in bargains) some dried yoghurt and some butter. After a few days the Prophet (ﷺ) saw Abdur-Rahman with some yellow stains on his clothes and asked him, "What is that, O 'Abdur-Rahman?" He replied, "I had married an Ansari woman." The Prophet (ﷺ) asked, "How much Mahr did you give her?" He replied, "The weight of one (date) stone of gold." The Prophet (ﷺ) said, "Offer a banquet, even with one sheep."