تشریح:
(1) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نکاح شغار، اسلام میں نہیں ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3465 (1415)) صحیح بخاری کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ شغار کی تعریف حضرت نافع نے کی ہے۔ (صحیح البخاري، الحیل، حدیث: 6960) اس میں حق مہر کی قید اتفاقی ہے، اصل مشروط تبادلۂ نکاح ہی شغار ہے، خواہ اس میں حق مہر کی تعیین ہو یا نہ ہو جیسا کہ حضرت عباس بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمٰن بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا اور عبدالرحمٰن نے اس کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا، ان دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیا تھا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان بن حکم کی طرف سے ایک مکتوب کے ذریعے سے ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دی اور لکھا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ (سنن أبي داود، النکاح، حدیث: 2075)
(2) اگرچہ فقہائے کوفہ نے مہر مثل کی ادائیگی سے اسے جائز قرار دیا ہے لیکن یہ موقف واضح احادیث کے خلاف ہے۔ ہاں، اگر اتفاقی طور پر تبادلۂ نکاح ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(3) اس کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہےکہ اگر ایک لڑکی کو اس کی غلطی کی وجہ سے طلاق ملتی ہے تو دوسری لڑکی کا گھر بلا وجہ اجڑ جاتا ہے، اس لیے شریعت نے مشروط تبادلۂ نکاح سے منع فرما دیا۔ والله اعلم