تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ جس طرح نمازی کے سامنے مرد کے بیٹھے رہنے یا لیٹے رہنے سے نماز میں کوئی نقصان واقع نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر طبیعت میں کوئی انتشار یا نماز میں خضوع خشوع متاثر ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو عورت کے سامنے لیٹے رہنے یا بیٹھے رہنے سے کوئی نقصان نہیں ہو گا ۔ اس عنوان سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح فرض نماز پڑھنے کی اجازت نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرض نماز تو مسجد میں ادا کرتے تھے۔ گھر میں نوافل و سنن پڑھنے کا اہتمام ہوتا تھا، لیکن اس کا یہ مفہوم نہیں۔ چونکہ حدیث تطوع نماز سے متعلق تھی اس لیے باب میں اس کا ذکر کر دیا۔ البتہ فرض نماز پڑھنے کا بھی یہی حکم ہے۔ (فتح الباري:760/1)
2۔ علامہ کرمانی ؒ نے لکھا ہے: عنوان کا تقاضا ہے کہ عورت کی پشت نمازی کی طرف ہو لیکن حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ملتا، کیونکہ اس کے الفاظ میں عموم ہے، پھر انھوں نے خود ہی جواب دیا کہ سونے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان قبلہ رخ ہو کر سوتا ہے اور حضرت عائشہ ؓ بھی اس پر عمل کرتی ہوں گی، اس بنا پر یہ حدیث عنوان کے مطابق ہے۔ (شرح الکرماني:166/2) اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس جواب میں تکلف ہے، کیونکہ سنت پر عمل کرنا (قبلہ رخ سونا) تو نیند کے آغاز میں ہے، ہمیشہ اسی حالت پر رہنا ضروری نہیں۔ سوتے وقت انسان غیر شعوری طور پر کروٹ بدلتا رہتا ہے، اس لیے میرے نزدیک جواب یہ ہے کہ عنوان میں "خلف المراة " کے الفاظ ہیں، ''خلف ظهر المرأة'' کے الفاظ نہیں کہ ہمیں اس کی جواب دہی میں تکلف کرنا پڑے، لہٰذا عورت کا سامنے ہونا کافی ہے خواہ وہ کسی حالت میں ہو۔ (فتح الباري:760/1)
3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے تنبیہ کا عنوان دے کر لکھا ہے کہ اس حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ اسی بستر پر نماز پڑھتے جس پر حضرت عائشہ ؓ سوئی ہوتیں۔ اس صورت میں آ پ ﷺ ان کے پاؤں کو چھودیتے تو وہ پیچھے کر لیتیں ۔ اور جس میں ہے کہ آپ کے اور قبلے کے درمیان ہوتی تو وہ دوسرا واقعہ ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ چار پائی پر ہوتیں اور رسول اللہ ﷺ نیچے نماز پڑھ رہے ہوتے۔ اس حالت میں پاؤں چھونے کی ضرورت نہیں گویا یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔ (فتح الباري:760/1)