باب: اونٹنی، اونٹ، درخت اور پالان کو سامنے کر کے نماز پڑھنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer As-Salat (the prayer) facing a Rahila camel, a tree or a camel saddle as a Sutra))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
513.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی سواری کو چوڑائی میں بٹھا دیتے پھر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ (نافع کہتے ہیں:) میں نے عرض کیا: اچھا یہ بتایے کہ اگر سواری کے اونٹ اپنی جگہ سے اٹھ جاتے تو آپ کیا کرتے تھے؟ ابن عمر ؓ نے فرمایا: اس صورت میں آپ پالان کو اپنے سامنے کھڑا کر لیتے اور اس کی پچھلی لکڑی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے۔ اور ابن عمر ؓ کا بھی یہی عمل تھا۔
تشریح:
1۔ حیوان کو سترہ بنانے کے متعلق بعض ائمہ کرام سے کراہت منقول ہے کہ سترے کا مقصد نماز کا تحفظ ہے، لیکن حیوان پر کیا بھروسا کہ وہ کب اٹھ کر چل دے۔ لیکن امام بخاری ؒ کے نزدیک سترے کے معاملے میں نمازی کے لیے پورا توسع ہے۔ وہ ہرچیز کو سترہ بنا سکتا ہے۔ وہ چیز از قسم حیوان ہو یا غیر حیوان، انھوں نے عنوان میں چار چیزوں کا ذکر کر کے توسع کا اظہار فرما دیا، لیکن روایت میں سواری اور پالان کا ذکر ہے، درخت اور اونٹ کا ذکر نہیں۔ لیکن اونٹ اور اونٹنی تو ایک ہی جنس کے دو نام ہیں، جب سواری کی اونٹنی کو سترہ بنایا جا سکتا ہے تو اس سے اونٹ کا حکم بھی معلوم ہوگیا۔ رہا درخت کا معاملہ تو وہ اس طرح ثابت ہے کہ جب لکڑی پالان کو سترہ بنانا درست ہے تو اس سے لکڑی کی ہرجنس کا حکم معلوم ہوگیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ نے اپنی عادت کے مطابق عنوان میں ان روایات کی طرف اشارہ کر دیا ہو جن میں صراحت کے ساتھ اونٹ اور درخت کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا ذکر ہے، چنانچہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اونٹ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:692) اسی طرح حضرت علی ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ بدر والی رات دیکھا کہ ہم میں سے ہر شخص سو گیا تھا، مگر رسول اللہ ﷺ ایک درخت کو سترہ بنا کر نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صبح تک دعا میں مشغول رہے۔ (السنن الکبریٰ للنسائي، أبواب السترة، حدیث:823) 2۔ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ آپ اونٹ کو سترہ بنا کر نماز پڑھنے کو مکروہ خیال کرتے تھے، ہاں! اگر اس پر پالان ہوتا تواس میں کوئی حرج خیال نہ کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس پر پالان ہونے کی صورت میں وہ آرام اورسکون سے بیٹھا رہتا ہے جبکہ اس کے بغیر اس کے مستی میں آ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ فقہاء نے پالان کی پچھلی لکڑی کو کم از کم سترے کی مقدار قراردیا ہے، اس کی اونچائی ایک ذراع یا 2 بٹے 3 ذراع ہوتی ہے، لیکن مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے اونٹ پرجو پالان ہوتا تھا، اس کی پچھلی لکڑی ایک ذراع کے برابر تھی۔ (فتح الباري:751/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
502
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
507
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
507
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
507
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی سواری کو چوڑائی میں بٹھا دیتے پھر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ (نافع کہتے ہیں:) میں نے عرض کیا: اچھا یہ بتایے کہ اگر سواری کے اونٹ اپنی جگہ سے اٹھ جاتے تو آپ کیا کرتے تھے؟ ابن عمر ؓ نے فرمایا: اس صورت میں آپ پالان کو اپنے سامنے کھڑا کر لیتے اور اس کی پچھلی لکڑی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے۔ اور ابن عمر ؓ کا بھی یہی عمل تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حیوان کو سترہ بنانے کے متعلق بعض ائمہ کرام سے کراہت منقول ہے کہ سترے کا مقصد نماز کا تحفظ ہے، لیکن حیوان پر کیا بھروسا کہ وہ کب اٹھ کر چل دے۔ لیکن امام بخاری ؒ کے نزدیک سترے کے معاملے میں نمازی کے لیے پورا توسع ہے۔ وہ ہرچیز کو سترہ بنا سکتا ہے۔ وہ چیز از قسم حیوان ہو یا غیر حیوان، انھوں نے عنوان میں چار چیزوں کا ذکر کر کے توسع کا اظہار فرما دیا، لیکن روایت میں سواری اور پالان کا ذکر ہے، درخت اور اونٹ کا ذکر نہیں۔ لیکن اونٹ اور اونٹنی تو ایک ہی جنس کے دو نام ہیں، جب سواری کی اونٹنی کو سترہ بنایا جا سکتا ہے تو اس سے اونٹ کا حکم بھی معلوم ہوگیا۔ رہا درخت کا معاملہ تو وہ اس طرح ثابت ہے کہ جب لکڑی پالان کو سترہ بنانا درست ہے تو اس سے لکڑی کی ہرجنس کا حکم معلوم ہوگیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ نے اپنی عادت کے مطابق عنوان میں ان روایات کی طرف اشارہ کر دیا ہو جن میں صراحت کے ساتھ اونٹ اور درخت کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا ذکر ہے، چنانچہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اونٹ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:692) اسی طرح حضرت علی ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ بدر والی رات دیکھا کہ ہم میں سے ہر شخص سو گیا تھا، مگر رسول اللہ ﷺ ایک درخت کو سترہ بنا کر نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صبح تک دعا میں مشغول رہے۔ (السنن الکبریٰ للنسائي، أبواب السترة، حدیث:823) 2۔ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ آپ اونٹ کو سترہ بنا کر نماز پڑھنے کو مکروہ خیال کرتے تھے، ہاں! اگر اس پر پالان ہوتا تواس میں کوئی حرج خیال نہ کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس پر پالان ہونے کی صورت میں وہ آرام اورسکون سے بیٹھا رہتا ہے جبکہ اس کے بغیر اس کے مستی میں آ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ فقہاء نے پالان کی پچھلی لکڑی کو کم از کم سترے کی مقدار قراردیا ہے، اس کی اونچائی ایک ذراع یا 2 بٹے 3 ذراع ہوتی ہے، لیکن مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے اونٹ پرجو پالان ہوتا تھا، اس کی پچھلی لکڑی ایک ذراع کے برابر تھی۔ (فتح الباري:751/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی بصری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا عبیداللہ بن عمر سے، وہ نافع سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے کہ آپ ﷺ اپنی سواری کو سامنے عرض میں کر لیتے اور اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے، عبیداللہ بن عمر نے نافع سے پوچھا کہ جب سواری اچھلنے کودنے لگتی تو اس وقت آپ کیا کیا کرتے تھے؟ نافع نے کہا کہ آپ اس وقت کجاوے کو اپنے سامنے کر لیتے اور اس کے آخری حصے کی (جس پر سوار ٹیک لگاتا ہے ایک کھڑی سی لکڑی کی) طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور عبداللہ بن عمر ؓ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام ؒ نے اونٹنی پر اونٹ کو اورپالان کی لکڑی پر درخت کو قیاس کیاہے۔ اس تفصیل کے بعد حدیث اور باب میں مطابقت ظاہرہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi (RA): "The Prophet (ﷺ) used to make his she-camel sit across and he would pray facing it (as a Sutra)." I asked, "What would the Prophet (ﷺ) do if the she-camel was provoked and moved?" He said, "He would take its camel-saddle and put it in front of him and pray facing its back part (as a Sutra). And Ibn 'Umar (RA) used to do the same." (This indicates that one should not pray except behind a Sutra).