باب:نبی کریم ﷺکا عورتوں کو اس طرح پر چھوڑنا کہ ان کے گھر ہی میں نہیں گئے
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: The decision of the Prophet (saws) not to share the beds with his wives and to stay away)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور معاویہ بن حیدہ سے مرفوعاً مروی ہے (اسے ابوداؤد وغیرہ نے نکالا ہے) کہ عورت کا چھوڑنا گھر ہی میں ہو مگر پہلی حدیث (یعنی انس ؓکی) زیادہ صحیح ہے۔(جس سے یہ نکلتا ہے کہ دوسرے گھر میں جا کر رہ جانا درست ہے
5243.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ایک دن ہم نے صبح کے وقت دیکھا کہ نبی ﷺ کی بیویاں رو رہی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ساتھ اس کے اہل خانہ بھی جمع تھے۔ میں مسجد گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ سیدنا عمر ؓ تشریف لائے تو نبی ﷺ کی طرف گئے جبکہ آپ بالا خانے میں تھی لیکن انہیں کسی نے جواب نہ دیا۔ انہوں نے پھر سلام کیا تو بھی کسی طرف سے جواب نہ آیا۔ پھر سلام کیا تو بھی جواب نہ آیا۔ پھر جب کسی نے انہیں آواز دی وہ نبی ﷺ کے پاس اوپر پہنچ گئے۔ اور جاتے ہی عرض کی: آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے جواب دیا: ”نہیں“ البتہ مہینہ بھر ان کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی ہے اس نے بعد آپ انتیس دن تک بالاخانہ میں ٹھہرے، پھر اپنی بیویوں کے پاس تشریف لے آئے۔
تشریح:
(1) خاوند کو عورتوں کی نافرمانی اور ان کی منہ زوری سے روکنے کے لیے تین اقدام کرنے کی اجازت دی گئی ہے: ٭ وعظ و نصیحت ٭ اپنے بستروں سے انھیں علیحدہ کرنا ٭ انھیں ہلکا پھلکا زد و کوب کرنا۔ ان سے علیحدگی اختیار کرنے کی دو صورتیں ممکن ہیں: ٭گھر میں رہتے ہوئے ان سے قطع تعلقی کر لی جائے۔ ٭گھر کے علاوہ دوسری جگہ میں خلوت نشینی اختیار کی جائے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت کیا ہے کہ گھر کے علاوہ دوسری جگہ میں بھی علیحدگی ہو سکتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ موقع محل اور عورت کے مزاج کے مطابق کسی بھی جگہ کو گوشہ نشینی کے لیے اختیار کیا جاسکتا ہے۔ بعض دفعہ گھر میں علیحدگی کار گر ثابت ہوتی ہے جبکہ کسی موقع پر گھر کے علاوہ دوسری جگہ پر علیحدگی اختیار کرنا مفید ثابت ہوتا ہے۔ والله اعلم (فتح الباري: 374/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5002
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5203
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5203
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5203
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
عنوان سابق میں جس آیت کو ذکر کیا گیا تھا اس میں عورتوں سے علیحدگی اختیار کرنے کاذکر تھا،اب یہ گوشہ نشینی گھر میں یا گھر کے علاوہ دوسری جگہ میں بھی ہوسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ گھر کے علاوہ دوسری جگہ میں بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ ایلاء کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مطابق عمل کیا تھا اور جس حدیث میں گھر کے اندر تنہائی اختیار کرنے کا ذکر ہے وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔(فتح الباری: 9/373)
اور معاویہ بن حیدہ سے مرفوعاً مروی ہے (اسے ابوداؤد وغیرہ نے نکالا ہے) کہ عورت کا چھوڑنا گھر ہی میں ہو مگر پہلی حدیث (یعنی انس ؓکی) زیادہ صحیح ہے۔(جس سے یہ نکلتا ہے کہ دوسرے گھر میں جا کر رہ جانا درست ہے
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ایک دن ہم نے صبح کے وقت دیکھا کہ نبی ﷺ کی بیویاں رو رہی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ساتھ اس کے اہل خانہ بھی جمع تھے۔ میں مسجد گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ سیدنا عمر ؓ تشریف لائے تو نبی ﷺ کی طرف گئے جبکہ آپ بالا خانے میں تھی لیکن انہیں کسی نے جواب نہ دیا۔ انہوں نے پھر سلام کیا تو بھی کسی طرف سے جواب نہ آیا۔ پھر سلام کیا تو بھی جواب نہ آیا۔ پھر جب کسی نے انہیں آواز دی وہ نبی ﷺ کے پاس اوپر پہنچ گئے۔ اور جاتے ہی عرض کی: آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے جواب دیا: ”نہیں“ البتہ مہینہ بھر ان کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی ہے اس نے بعد آپ انتیس دن تک بالاخانہ میں ٹھہرے، پھر اپنی بیویوں کے پاس تشریف لے آئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) خاوند کو عورتوں کی نافرمانی اور ان کی منہ زوری سے روکنے کے لیے تین اقدام کرنے کی اجازت دی گئی ہے: ٭ وعظ و نصیحت ٭ اپنے بستروں سے انھیں علیحدہ کرنا ٭ انھیں ہلکا پھلکا زد و کوب کرنا۔ ان سے علیحدگی اختیار کرنے کی دو صورتیں ممکن ہیں: ٭گھر میں رہتے ہوئے ان سے قطع تعلقی کر لی جائے۔ ٭گھر کے علاوہ دوسری جگہ میں خلوت نشینی اختیار کی جائے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت کیا ہے کہ گھر کے علاوہ دوسری جگہ میں بھی علیحدگی ہو سکتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ موقع محل اور عورت کے مزاج کے مطابق کسی بھی جگہ کو گوشہ نشینی کے لیے اختیار کیا جاسکتا ہے۔ بعض دفعہ گھر میں علیحدگی کار گر ثابت ہوتی ہے جبکہ کسی موقع پر گھر کے علاوہ دوسری جگہ پر علیحدگی اختیار کرنا مفید ثابت ہوتا ہے۔ والله اعلم (فتح الباري: 374/9)
ترجمۃ الباب:
معاویہ بن حیدہ ؓ سے مرفوع روایت ہے: ”عورت سے تنہائی گھر ہی میں ہو۔“ لیکن پہلے معنی زیادہ صحیح ہیں۔ فائدہ: عنوان سابق میں جس آیت کو ذکر کیا گیا تھا اس میں عورتوں سے علیحدگی اختیار کرنے کا ذکر تھا، اب یہ گوشہ نشینی گھر میں ہو یا گھر کے علاوہ دوسری جگہ میں بھی ہوسکتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ گھر کے علاوہ دوسری جگہ میں بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ ایلاء کے موقع پر رسول اللہ ﷺنے اس کے مطابق عمل کیا تھا اور کس حدیث میں گھر کے اندر تنہائی اختیار کرنے کا ذکر ہے وہ امام بخاری کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مروان بن معاویہ نے، کہا ہم سے ابو یعفور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو الضحیٰ کی مجلس میں (مہینہ پر) بحث کی تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ایک دن صبح ہوئی تو نبی کریم ﷺ کی ازواج رو رہی تھیں، ہر زوجہ مطہرہ کے پاس ان کے گھر والے موجود تھے۔ مسجد کی طرف گیا تو وہ بھی لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ پھر عمر بن خطاب آئے اورنبی کریم ﷺ کی خدمت میں اوپر گئے تو آنحضرت ﷺ اس وقت ایک کمرہ میں تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے سلام کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ انہوں نے پھر سلام کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ پھر سلام کیا اوراس مرتبہ بھی کسی نے جواب نہیں دیا تو آواز دی (بعد میں اجازت ملنے پر) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں گئے اور عرض کیا کیا آنحضرت ﷺ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ایک مہینہ تک ان سے الگ رہنے کی قسم کھائی ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ انتیس دن تک الگ رہے اور پھر اپنے بیویوں کے پاس گئے۔
حدیث حاشیہ:
اصطلاح میں اسی کو ایلاء کہا جاتا ہے یعنی مدت مقررہ کے لئے اپنی بیوی سے الگ رہنے کی قسم کھا لینا مدت پوری ہونے کے بعد ملنا جائز ہو جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : One morning we saw the wives of the Prophet (ﷺ) weeping, and everyone of them had her family with her, I went to the mosque and found that it was crowded with people. Then 'Umar bin Al-Khattab (RA) came and went up to the Prophet (ﷺ) who was in his upper room. He greeted him but nobody answered. He greeted again, but nobody answered. Then the gatekeeper called him and he entered upon the Prophet, and asked, "Have you divorced your wives?" The Prophet, said, "No, but I have taken an oath not to go to them for one month." So the Prophet (ﷺ) stayed away (from his wives) for twenty nine days and then entered upon them.