قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلاَقِ (بَابُ المُتْعَةِ لِلَّتِي لَمْ يُفْرَضْ لَهَا)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {لاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ، أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً} [البقرة: 236]- إِلَى قَوْلِهِ - {إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ} [البقرة: 110] وَقَوْلِهِ: {وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ [ص:62] بِالْمَعْرُوفِ، حَقًّا عَلَى المُتَّقِينَ، كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ} [البقرة: 242] وَلَمْ يَذْكُرِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي المُلاَعَنَةِ مُتْعَةً حِينَ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا

5350. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْمُتَلاَعِنَيْنِ: «حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ، لاَ سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا» قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَالِي؟ قَالَ: «لاَ مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا، فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا، فَذَاكَ أَبْعَدُ وَأَبْعَدُ لَكَ مِنْهَا»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا ” لا جناح علیکم “ یعنی تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم ان بیویوں کو جنہیں تم نے نہ ہاتھ لگایا ہو اور نہ ان کے لیے مہر مقرر کیا ہو طلاق دے دو تو ان کو کچھ فائدہ پہنچاؤ ارشاد ” بما تعملون بصیر “ تک ۔ اور اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا طلاق والی عورتوں کے لیے دستور کے موافق دینا پر ہیز گاروں پر واجب ہے ۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے کھول کر اپنے احکام بیان کرتا ہے ۔ شاید کہ تم سمجھو “ اور لعان کے موقع پر ، جب عورت کے شوہر نے اسے طلاق دی تھی تو بنی کریم ﷺنے متاع کا ذکر نہیں فرمایا تھا ۔تو لعان والی عورت کو کچھ دینا ضروری نہیں ہے یہ مہر کے علاوہ کی بات ہے۔

5350.

سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے لعان کرنے والے میاں بیوی سے فرمایا: ”تمہارا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ البتہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ اب اس عورت پر تمہارا کوئی حق نہیں۔“ شوہر نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے مال کے متعلق کیا حکم ہۓ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اب تیرے لیے کوئی مال نہیں، اس لیے اگر تو نے تہمت لگانے میں سچائی سے کام لیا تو وہ مال بیوی کی شرم گاہ حلال سمجھنے کی وجہ سے ختم ہو گیا اور اگر تو نے اس کے متعلق جھوٹ کہا ہے تو وہ مال تیرے لیے اس سے بھی بعید ہوا۔