تشریح:
(1) جہنم کا سانس لینا اور شکایات کرنا مبنی بر حقیقت ہے۔ اس کی تاویل کرنا درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ اگر حضرت سلیمان ؑ کے ہدہد کو علم وادراک عنایت کرسکتا ہے تو جہنم کو شکایت کرنے اور سانس لینے کی قدرت دینا کیوں کر بعید ہو سکتا ہے جبکہ قرآن کریم نے خود جہنم کی گفتگو بیان کی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍ ﴿٣٠﴾ ’’اس دن ہم جہنم سے پوچھیں گے:کیا تو بھر گئی؟ تو وہ کہے گی: کیا کچھ اور بھی ہے؟‘‘ (ق: 50:30) پھر احادیث میں جنت اور جہنم کے باہمی مکالمے کا بھی ذکر ہے، اس لیے جہنم کے گفتگو کرنے میں کوئی حیرت کی بات نہیں، اللہ تعالیٰ جس چیز کو چاہے قوت گویائی عطاکرسکتا ہے، نیز جہنم کے کئی ایک طبقات ہیں، جہاں اس کا ایک طبقہ انتہائی گرم ہے، وہاں دوسرا طبقہ ناقابل برداشت حد تک سرد بھی ہے۔اس کا نام طبقۂ زمہریر ہے۔ موسم سرما میں سردی کی شدت اسی کی بدولت ہوتی ہے۔ (عمدة القاري:33/4) (2) اس حدیث پر سائنسی لحاظ سے دواعتراضات ہیں:٭ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گرمی اور سردی کا اصل مرکز جہنم ہے جبکہ سائنسی تحقیقات کی رو سے سردی اور گرمی کااصل منبع سورج ہے۔ جب سورج زمین کے قریب ہوتا ہے تو گرمی اور جب دور ہوتا ہے تو سردی ہوتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں گرمی اور سردی کی شدت کے ایک باطنی سبب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہری سبب کی نفی نہیں ہوتی۔ اس بنا پر حدیث اور سائنس میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ ایک چیز کے متعداد اسباب ہوسکتے ہیں۔٭ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر گرمی و سردی کا سبب جہنم کا سانس لینا ہے تو کرۂ ارض کے تمام علاقوں میں ایک جیسی گرمی یا سردی ہونی چاہیے جبکہ یہ بات مشاہدے کے خلاف ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کرۂ ارض پر گرمی وسردی کا کم وبیش ہونا متعدد عوارض کی بنا پر ہے۔ اگر یہ عوارض نہ ہوں تو تمام علاقوں میں گرمی کی حدت اور سردی کی شدت ایک جیسی ہو۔ ان عوارض میں بارش، سایہ دار جنگلات، علاقہ جات کا ساحلی یا صحرائی ہونا اور دیگرعوامل شامل ہیں۔ والله أعلم۔