تشریح:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کوفے کا گورنر بنایا تو وہاں کے لوگوں نے آپ کی شکایت کی کہ آپ اچھی طرح نماز نہیں پڑھتے اور نہ فیصلہ کرتے وقت عدل و انصاف ہی سے کام لیتے ہیں۔ اس پر انہیں غصہ آیا کہ ایک قدیم الاسلام انسان احکام شرعیہ سے کیسے غافل رہ سکتا ہے؟ اگر آج میں بنو سعد کی تعلیم و تادیب کا محتاج ہوں تو میرے سابقہ عمل ضائع ہو گئے کیونکہ ہم نے بڑے کٹھن حالات میں اسلام قبول کیا تھا جبکہ ہم درختوں کے پتوں پر گزارہ کرتے تھے۔ بہرحال بنو سعد کی کوئی بھی شکایت مبنی بر حقیقت نہ تھی۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے قدیم الاسلام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کو بیان کیا ہے کہ ان دنوں کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی نہ تھی بلکہ یہ حضرات درختوں کے پتوں سے اپنا پیٹ بھرتے تھے جس سے انہیں سخت قبض ہو جاتی اور قضائے حاجت کے وقت مینگنیاں برآمد ہوتیں۔