تشریح:
(1) عربوں کے ہاں جو لوگ خوش حال ہوتے وہ بکری کا بچہ لیتے اور اسے ذبح کر کے اندرونی صفائی کے بعد کھال سمیت اسے سخت گرم پانی میں ڈال دیتے۔ جب اس کے بال اتر جاتے تو سالم بچے کو بھون لیتے، پھر مزے سے کھاتے۔ اس کے دو نقصان ہوتے: ایک تو چھوٹے سے ہی کو ذبح کر لیا جاتا، دوسرے اس کی کھال ضائع ہو جاتی۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر اس انداز سے بھنی ہوئی بکری کبھی نہیں دیکھی، نہ آپ نے کھانے کا میز، چھوٹی پیالیاں، باریک پسا ہوا آٹا اور چھنا ہوا آٹا استعمال کیا بلکہ جَو کا بغیر چھنا آٹا ہی بطور خوراک استعمال فرمایا کرتے تھے، لیکن بھنا ہوا شانہ تناول کرنا ثابت ہے جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔