تشریح:
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث: 2322) لیکن اس حدیث میں ہے کہ جو انسان کھیتی باڑی یا مویشیوں کی حفاظت یا شکار کی غرض کے علاوہ کتا پالتا ہے اس کے ثواب سے روزانہ ایک قیراط کی کمی ہو جاتی ہے لیکن اس قیراط کی مقدار اتنی نہیں جتنی جنازہ پڑھنے اور میت کے دفن میں شمولیت کرنے والے کو بطور ثواب دی جاتی ہے کیونکہ وہ قیراط تو اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا اور یہ اللہ کی طرف سے سزا ہے، اس لیے دونوں میں فرق رکھا گیا ہے۔ (فتح الباري: 5/10)
(2) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں دو قیراط کمی جبکہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ایک قیراط کمی کا ذکر ہے، بظاہر دونوں میں تعارض ہے جبکہ دونوں روایات صحیح بخاری کی ہیں؟ اس کا حل یہ ہے کہ کتے میں نقصان پہنچانے کی خصلت جس قدر ہو گی اس قدر ہی ثواب میں کمی ہو گی۔ اگر کتا موذی نہیں ہے تو ایک قیراط ورنہ دو قیراط کم ہوں گے۔ واللہ أعلم۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کھیتی کے لیے کتا رکھنے کا جواز حضرت سفیان بن ابو زہیر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث: 2323)
(3) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ شکار کے لیے کتا گھر میں رکھا جا سکتا ہے اور اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتے کے علاوہ کسی بھی کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔