تشریح:
(1) عربوں نے تاریخ کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا تھا۔ ایک مہینے کو پیچھے کر کے دوسرا مہینہ آگے کر دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ کبھی کبھی سال تیرہ ماہ کا بھی ہو جاتا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جس سال حج کیا تھا عربوں نے ماہ ذوالحجہ کو ایک مہینہ پیچھے کر دیا تھا، یعنی وہ حج ذوالقعدہ کے مہینے میں ہوا تھا۔ اسے وہ نسیئ کہتے تھے جس کی قرآن کریم نے تردید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حج کیا وہ ذوالحجہ کے مہینے ہی میں تھا۔ اسی بات کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے آغاز میں کی ہے۔
(2) جو حضرات دسویں ذوالحجہ کو قربانی کا دن قرار دیتے ہیں ان کا استدلال یہ ہے کہ حدیث میں یوم کی اضافت النحر کی طرف ہے جو اختصاص کے لیے ہے، یعنی نحر اسی دن میں منحصر ہے لیکن دوسری نصوص کو نظر انداز کر کے صرف عقلی بنیاد پر مسئلہ بنا لینا دانشمندی نہیں جبکہ قرآن کریم میں ہے: ’’اور قربانی کے ایام معلومات میں مویشی قسم کے چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں دیے ہیں۔‘‘ (الحج: 28) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کے لیے متعدد ایام ہیں، چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام ایام تشریق قربانی کے دن ہیں۔‘‘ (مسند أحمد: 82/4) ایام تشریق یوم النحر اور اس کے بعد تین دن ہیں، یعنی 10 ذوالحجہ سے لے کر 13 ذوالحجہ کی شام تک قربانی کی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم