تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سر کے پاس بیٹھ گئے اور اسے کہا: ’’بیٹے! تم مسلمان ہو جاؤ۔‘‘ وہ اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگا تو اس نے کہا: ابو القاسم کی بات مان لو، چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا تو آپ نے ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا: ’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اسے آگ سے بچا لیا۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1356)
(2) ابن بطال نے لکھا ہے کہ اگر مشرک سے امید ہو کہ وہ اسلام قبول کرے گا تو اس کی عیادت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر اس طرح کی توقع نہ ہو تو اس کی مزاج پرسی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن یہ بات مطلق طور پر صحیح نہیں ہے کیونکہ مختلف حالات کے پیش نظر دیگر مقاصد بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کی تیمارداری دوسری مصلحتوں کی وجہ سے بھی کی جا سکتی ہے، مثلاً: اس کا کوئی عزیز مسلمان ہو اس کی حوصلہ افزائی پیش نظر ہو یا اس سے اسلام یا اہل اسلام کو کوئی خطرہ ہو تو اس کی روک تھام مقصود ہو۔ (فتح الباري: 148/10)