تشریح:
(1) مسجد نبوی میں نماز عشاء سے متعلق متعدد واقعات مختلف اوقات میں پیش آئے: حضرت عائشہ ؓ کا بیان کردہ واقعہ آغاز اسلام میں پیش آیا، جیسا کہ سابقہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ اس کے کافی عرصے بعد حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور ان کے رفقاء کا مذکورہ واقعہ پیش آیا کیونکہ وہ یمن سے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کے لیے نکلے تھے مگر سمندری سفر کے دوران میں انھیں تیز آندھی نے حبشہ پہنچا دیا۔ وہاں سات سال حضرت جعفر طیار ؓ کے ہمراہ قیام فرمایا، پھر وہاں ان کی معیت میں مدینہ منورہ پہنچے اور وادئ بطحان میں پڑاؤ کیا۔ وہاں سے باری باری کچھ افراد ہررات عشاء کے وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ مذکورہ واقعہ اسی دور کا ہے۔ (صحیح البخاري، المغازی، حدیث:4230) اس کے بعد اسی طرح کا ایک اور واقعہ پیش آیا جسے حضرت ابن عباس ؓ کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ ہجرت کے آٹھویں سال مدینہ طیبہ میں حاضر ہوئے تھے۔ ظاہر ہے ان کا چشم دید واقعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے واقعے کے بعد پیش آیا ہوگا۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:571) ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز عشاء میں تاخیر مسجد نبوی ہی میں ہوا کرتی تھی کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مختلف اطراف سے علوم دینیہ کی تحصیل کے لیے حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم آتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی ہمہ وقت مشغولیت اور شبانہ روز تعلیم و تربیت کے اہتمام کی وجہ سے نماز عشاء میں تاخیر ہوجاتی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اتنی تاخیر کی ضرورت مسجد نبوی کے علاوہ کسی اور مسجد میں پیش نہیں آتی ہوگی۔ والله أعلم۔ (2) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز عشاء کے متعلق یہ غیر معمولی تاخیر کسی لشکر کی ترتیب کی بنا پر تھی۔ بہر حال جب آپ نے آدھی رات کے بعد نماز عشاء پڑھائی تو اپ نے حاضرین کو خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ اس وقت تمھارے علاوہ کوئی بھی نماز پڑھنے والا نہیں ہے، یعنی تمھارا انتظار اسلام کی ایک مخصوص اور امتیازی نماز کے لیے تھا، اس لیے یہ اجرو ثواب سے خالی نہیں بلکہ اس میں تمھارے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی بات سن کر اس قدر خوش ہوکر واپس ہوئے جس کی انتہا نہیں، کیونکہ ہمیں نماز عشاء کے عمل اور اس کے انتظار پر رسول اللہ ﷺ نے خوش خبری سنائی تھی۔