تشریح:
انسان جب تک دنیا میں رہے اپنی بہتری اور بھلائی کی دعا کرتا رہے، اور اگر اسے اپنی زندگی میں کسی فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اور اسے اپنی آخرت کے تباہ ہونے کا خطرہ ہو تو حدیث میں مذکورہ الفاظ سے دعا کی جا سکتی ہے۔ یہ الفاظ موت طلب کرنے کے زمرے میں نہیں آتے۔ ان الفاظ میں انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہے اور یہ تسلیم و رضا کے منافی بھی نہیں ہیں۔ (فتح الباري: 159/10)