صحیح بخاری
2. کتاب: ایمان کے بیان میں
44. باب:آنحضرت ﷺ کا یہ فرمان کہ دین سچے دل سے اللہ کی فرمابرداری اور اس کے رسول اور مسلمان حاکموں اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کا نام ہے۔
Sahi-Bukhari
2. Belief
44. Chapter: The statement of the Prophet (saws): Religion is An-Nasihah (to be sincere and true) to Allah, to His Messenger (Muhammad (saws)), to the Muslim rulers, and to all the Muslims
باب:آنحضرت ﷺ کا یہ فرمان کہ دین سچے دل سے اللہ کی فرمابرداری اور اس کے رسول اور مسلمان حاکموں اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کا نام ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: The statement of the Prophet (saws): Religion is An-Nasihah (to be sincere and true) to Allah, to His Messenger (Muhammad (saws)), to the Muslim rulers, and to all the Muslims)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ترجمۃ الباب : اور اللہ نے ( سورہ توبہ میں) فرمایا:’’ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی میں رہیں۔‘‘
57.
حضرت جریر بن عبداللہ البجلی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان سے خیرخواہی کرنے (کے اقرار) پر بیعت کی۔
تشریح:
1۔ عربی زبان میں پھٹے ہوئے کپڑے کو سوئی سے پیوند لگانے کو نصیحت کہتے ہیں، نیز جب شہد سے موم کو الگ کیا جائے تو اس وقت بھی نصیحت کا لفظ بولا جاتا ہے۔ شرعی طور پر کسی انسان کو اس کے عیوب پر اخلاص کے ساتھ مطلع کرنے کو نصیحت کہتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی پردہ دری نہ کی جائے۔ اگر خیر خواہی میں اخلاص نہ ہو تو دھوکا دہی سے تعبیرکیا جا سکتا ہے۔قرآن کریم میں توبہ نصوح کا ذکر ہے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ گناہوں کی وجہ سے انسان کا دین پارہ پارہ ہو جاتا ہے، توبہ سے اس کی پیوندی کاری کر کے صحیح کیا جا سکتا ہے۔ 2۔ بعض روایات میں بیعت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے موقع پر ادائے شہادتین اور سمع و اطاعت کا بھی ذکر ہے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2157) بعض روایات میں ہے کہ بیعت لیتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تلقین کیے کہ میں ان باتوں پر حتی المقدور عمل کروں گا۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7204) دین کے دیگر احکام سمع واطاعت میں آجاتے ہیں۔ ( فتح الباري: 183/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
57
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
57
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
57
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
57
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ دین و ایمان کا اتحاد پہلے ثابت کر چکے ہیں لہٰذا الدین النصیحۃ سے الایمان النصیحۃ ہو گیا یعنی ایمان خیر خواہی کا نام ہے۔ یہ اس بنا پر بھی کہ ایمان اور نصیحت میں بہت گہرا تعلق ہے چونکہ نصیحت کے درجات مختلف ہیں اس لیے ایمان کے درجات مختلف ہو گئے۔اس سے ایمان کی کمی بیشی کا مسئلہ بھی صاف ہو گیا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو بطور عنوان رکھا ہے حدیث چونکہ ان کی شرط کے مطابق نہ تھی اس لیے متین میں اسے نہیں لائے اور اس کمی کی تلافی قرآنی آیت سے فرما دی۔ آیت کریمہ میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو غزوہ تبوک میں کسی شرعی عذر کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔ اللہ نے فرمایا:اگر ایسے محسنین جہاد میں شرکت کرنے سے معذور ہوں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ان کا سابقہ کردار اللہ اور اس کے رسول سے خیر خواہی کا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دلوں میں جہاد کی تڑپ مجاہدین سے محبت دشمنان اسلام سے عداوت ہو اور حتی المقدور احکام شریعت کی اطاعت کرتے رہے ہوں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان کے آخر میں یہ عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ اس کتاب میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ محض مسلمانوں کی خیر خواہی اور ہمدردی کے پیش نظر ہے۔ اس کے پس منظر میں ہرگز کسی سے عناد یا تعصب نہیں۔ہماری نیت میں اخلاص ہے اور اصلاح احوال مقصود ہے واللہ اعلم اللہ کے ساتھ خیر خواہی یہ ہے کہ صرف اس کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے اور اوامر ونواہی فرما نبرداری کی جائے۔ رسول سے خواہی یہ ہے کہ اس کی انتہائی تعظیم و تکریم کی جائے اسے اللہ کا نمائندہ خیال کرتے ہوئے اس کی با ت کو آخری اتھارٹی کے طور پر مانا جائے۔ اہل اسلام حکمرانوں سے خیرخواہی یہ ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کا کہا مانا جائے۔کفر بواح کے علاوہ کسی صورت میں بھی ان سے بغاوت نہ کی جائے ۔عامۃ المسلمین سے خیر خواہی یہ ہے کہ انھیں دین سکھا یا جائے ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو رواج دیا جائے نیز ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔
Normal
0
false
false
false
EN-US
X-NONE
AR-SA
/* Style Definitions */
table.MsoNormalTable
{mso-style-name:"Table Normal";
mso-tstyle-rowband-size:0;
mso-tstyle-colband-size:0;
mso-style-noshow:yes;
mso-style-priority:99;
mso-style-parent:"";
mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt;
mso-para-margin-top:0in;
mso-para-margin-right:0in;
mso-para-margin-bottom:8.0pt;
mso-para-margin-left:0in;
line-height:107%;
mso-pagination:widow-orphan;
font-size:11.0pt;
font-family:"Calibri",sans-serif;
mso-ascii-font-family:Calibri;
mso-ascii-theme-font:minor-latin;
mso-hansi-font-family:Calibri;
mso-hansi-theme-font:minor-latin;
mso-bidi-font-family:Arial;
mso-bidi-theme-font:minor-bidi;}
ترجمۃ الباب : اور اللہ نے ( سورہ توبہ میں) فرمایا:’’ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی میں رہیں۔‘‘
حدیث ترجمہ:
حضرت جریر بن عبداللہ البجلی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان سے خیرخواہی کرنے (کے اقرار) پر بیعت کی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ عربی زبان میں پھٹے ہوئے کپڑے کو سوئی سے پیوند لگانے کو نصیحت کہتے ہیں، نیز جب شہد سے موم کو الگ کیا جائے تو اس وقت بھی نصیحت کا لفظ بولا جاتا ہے۔ شرعی طور پر کسی انسان کو اس کے عیوب پر اخلاص کے ساتھ مطلع کرنے کو نصیحت کہتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی پردہ دری نہ کی جائے۔ اگر خیر خواہی میں اخلاص نہ ہو تو دھوکا دہی سے تعبیرکیا جا سکتا ہے۔قرآن کریم میں توبہ نصوح کا ذکر ہے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ گناہوں کی وجہ سے انسان کا دین پارہ پارہ ہو جاتا ہے، توبہ سے اس کی پیوندی کاری کر کے صحیح کیا جا سکتا ہے۔ 2۔ بعض روایات میں بیعت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے موقع پر ادائے شہادتین اور سمع و اطاعت کا بھی ذکر ہے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2157) بعض روایات میں ہے کہ بیعت لیتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تلقین کیے کہ میں ان باتوں پر حتی المقدور عمل کروں گا۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7204) دین کے دیگر احکام سمع واطاعت میں آجاتے ہیں۔ ( فتح الباري: 183/1)
ترجمۃ الباب:
Normal
0
false
false
false
EN-US
X-NONE
AR-SA
/* Style Definitions */
table.MsoNormalTable
{mso-style-name:"Table Normal";
mso-tstyle-rowband-size:0;
mso-tstyle-colband-size:0;
mso-style-noshow:yes;
mso-style-priority:99;
mso-style-parent:"";
mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt;
mso-para-margin-top:0in;
mso-para-margin-right:0in;
mso-para-margin-bottom:8.0pt;
mso-para-margin-left:0in;
line-height:107%;
mso-pagination:widow-orphan;
font-size:11.0pt;
font-family:"Calibri",sans-serif;
mso-ascii-font-family:Calibri;
mso-ascii-theme-font:minor-latin;
mso-hansi-font-family:Calibri;
mso-hansi-theme-font:minor-latin;
mso-bidi-font-family:Arial;
mso-bidi-theme-font:minor-bidi;}
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’جب وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیرخواہی کا تعلق رکھیں۔‘‘
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید بن قطان نے بیان کیا، انھوں نے اسماعیل سے، انھوں نے کہا مجھ سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا، انھوں نے جریر بن عبداللہ بجلی ؓ سے سنا، انھوں نے کہا آنحضرت ﷺ سے میں نے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jarir bin Abdullah (RA): I gave the pledge of allegiance to Allah's Apostle (ﷺ) for the following: 1. Offer prayers perfectly 2. Pay the Zakat (obligatory charity) 3. And be sincere and true to every Muslim.