تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کے نزدیک عشاء کی نماز کا وقت نصف رات تک ہے۔ اور یہ واقت جواز ہے، وقت مختار نہیں۔ نصف رات کے بعد عشاء قضا ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے عنوان اور اس کے تحت بیان کی گئی احادیث میں کوئی ایسی چیز ذکر نہیں کی جس سے عشاء کے وقت کا صبح صادق تک ہونا معلوم ہو۔ سرزمین حجاز کے نامور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں: عشاء کی نماز کا وقت غروب شفق سے نصف رات تک ہے۔ اس کا وقت طلوع فجر تک نہیں رہتا کیونکہ یہ ظاہر قرآن کے خلاف ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’زوال آفتاب سے رات کے اندھیرے تک نماز پڑھیں۔‘‘ (الإسراء17: 78) اس میں باری تعالیٰ نے چار نمازوں کا ذکر کیا ہے: ظہروعصر، مغرب اور عشاء۔ اگر عشاء کا وقت طلوع فجر تک ہوتا تو اس مقام پر طلوع فجرتک الفاظ استعمال کیے جاتے۔ پھر احادیث میں صراحت ہے کہ عشاء کا وقت نصف شب تک ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’نماز عشاء کا وقت نصف رات تک ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1386(612)) اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز نصف رات تک ادا کی جاسکتی ہے۔ (رسالة مواقيت الصلاة)
(2) حدیث میں ہےکہ جب تک تم نماز کے انتظار میں رہو گے تمھارا وقت نمازہی میں شمار ہو گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت سے پہلے مسجد میں جاکر وہاں انتظار نماز میں بیٹھنے کی فضیلت ہے، لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہےکہ ایک نماز سے فارغ ہو کر دوسری نماز کے انتظار کرنے میں بڑی فضیلت ہے۔ اس سے مراد صرف قلبی تعلق ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دےگا جس کا دل مسجد میں لٹکا ہوا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:660) اور مومن کی شان بھی یہی ہے کہ ہر وقت اس کا خیال نماز اور مسجد کی طرف رہے۔ اگر مسجد اور نماز میں اس کا دل باہر کی چیزوں میں لگا ہوا ہے تو ایسی نماز اور مسجد میں انتظار بے سود ہے۔ اور اگر کسی کو دونوں باتیں میسر ہوں کہ قلب و جسم دونوں مسجد میں ہوں تو نور علی نور ہے۔
(3) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں ابن ابی مریم کے حوالے سے ایک تعلیق بھی ذکر کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ حمیدہ الطویل کا سماع حضرت انس ؓ سے ثابت کیا جائے، کیونکہ اس نے پہلے"عن" کے صیغے سے حدیث بیان کی تھی۔ اس تعلیق کو ابو طاہر مخلص نے اپنے"فوائد" کے پہلے جز میں موصولاً بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:70/2)