تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کی شفایابی کے لیے اپنی انگلی پر لعاب دہن لگا کر مذکورہ دعا پڑھتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ، الطب، حدیث: 3521) مدینہ طیبہ کی مٹی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن دونوں کو خاص شرف حاصل ہے، تاہم سنت پر عمل کرتے ہوئے جو شخص بھی اس طرح کرے گا ان شاءاللہ مریض کو شفا ہو گی۔
(2) تھوک اور مٹی تو ظاہری اسباب ہیں جنہیں اختیار کرنے کا حکم ہے، ان میں شفا پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کے اذن پر موقوف ہے۔ مومن کا لعاب دہن اور مٹی خواہ کسی سرزمین کی ہو، شفا بخشی کا ایک حصہ ہیں۔ اس میں اصل تاثیر تو "بإذن ربنا" کے لفظ کی ہے۔ قاضی بیضاوی لکھتے ہیں کہ طب کی تحقیق کے مطابق تھوک کو مزاج کی تبدیلی میں بہت دخل ہے اور وطن کی مٹی مزاج کی حفاظت اور دفع ضرر کے لیے عجیب اثر رکھتی ہے۔ اہل طب کہتے ہیں کہ مسافر آدمی اپنی سرزمین کی مٹی ساتھ رکھتے، جب اسے کسی ناموافق پانی سے واسطہ پڑے تو تھوڑی سی مٹی مشکیزے میں ڈال دے تاکہ وہاں کے منفی اثرات سے محفوط رہے۔ دراصل جھاڑ پھونک میں عجیب اثرات ہوتے ہیں، ان کی حقیقت تک پہنچنے سے عقل قاصر ہے۔ (فتح الباری: 10/257)