تشریح:
(1) بدشگونی کے لغو ہونے پر تمام عقلاء متفق ہیں۔ حدیث میں مذکور تین چیزوں کے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بدشگونی اگر ہو بھی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہو سکتی ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الطب، حدیث:3921) اس کا مطلب یہ ہے کہ بدشگونی اگر ہو تو بھی ان مذکورہ تین چیزوں میں ممکن ہے لیکن یہ کوئی یقینی نہیں۔ سواری، بیوی اور گھر اگر دین و دنیا میں مفید نہ ہوں تو ان کے بدل لینے میں کوئی حرج نہیں۔ سواری کی نحوست یہ ہے کہ وہ اڑیل ہو اور مقصد پورا کرنے کے قابل نہ ہو۔ بیوی کی نحوست یہ ہے کہ وہ ترش مزاج اور جھگڑالو ہو۔ اور گھر کی نحوست یہ ہے کہ وہ تنگ و تاریک ہو یا اس کے ہمسائے اچھے نہ ہوں۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور جاہلیت کی بدشگونی کو شرک قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: ’’ہم میں سے کوئی نہ کوئی کسی وہم میں مبتلا ہو ہی جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ توکل کی برکت سے اسے زائل کر دیتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الطب، حدیث:3538) بہرحال بدشگونی اور نحوست کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں۔ واللہ أعلم