تشریح:
(1) ان دونوں روایات کامضمون تقریبا ایک ہے، یعنی ان میں نماز اور سحری کا وقفہ بیان کیا گیا ہے کہ جتنے عرصے میں پچاس یا ساٹھ آیات کی تلاوت کی جاسکے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سحری اور نماز کے درمیان بہت کم وقفہ تھا اور سحری سے فراغت کے بعد جلد ہی نماز کےلیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ ان احادیث کے پیش نظر امام بخاری ؒ کایہ موقف ہے کہ نماز فجر صبح صادق کے بعد اندھیرے میں شروع کردی جائے۔ بعض احادیث میں اس کی صراحت ہے، جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز، صبح صادق طلوع ہوتے ہی شروع فرما دیتے تھے، حتی کہ اندھیرے کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کو پہچان بھی نہیں سکتے تھے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1393(614)) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’فجر دوطرح کی ہوتی ہے:ایک وہ فجر جس میں کھانا حرام اور نماز ادا کرنا جائز ہے اور دوسری وہ فجر جس میں نماز پڑھنا حرام لیکن کھانا مباح ہے۔‘‘ (المستدرك للحاکم:191/1) حضرت جابر ؓ کی روایت میں مزید وضاحت ہے کہ وہ صبح جو بھیڑیے کی دم کی طرح اونچی چلی جاتی ہے، اس میں نماز پڑھنا حرام اور کھانا مباح ہوتا ہے اور وہ صبح جو آسمان کےکناروں میں پھیل جاتی ہے، اس میں نماز پڑھنا مباح اور کھانا حرام ہوتا ہے۔ (المستدرك للحاکم:191/1)
(2) حضرت انس ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سحری میں شریک نہیں تھے۔ ایک تفصیلی رویت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ سے فرمایا:’’میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں، کھانے وغیرہ کا بندوبست کرو۔‘‘چنانچہ میں کھجور اور پانی لےکر حاضر خدمت ہوا، پھر آپ نے فرمایا:’’ کوئی آدمی تلاش کرو جو میرے ساتھ کھانے میں شریک ہوجائے۔‘‘ تو میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کوبلالایا،وہ آئے اور سحری میں شریک ہوگئے، فراغت کے بعد آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر نماز فجر کےلیے کھڑے ہوگئے۔ (فتح الباري:72/2)