قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الطِّبِّ (بَابٌ: هَلْ يَسْتَخْرِجُ السِّحْرَ؟)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ قَتَادَةُ: قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ: رَجُلٌ بِهِ طِبٌّ، أَوْ: يُؤَخَّذُ عَنِ امْرَأَتِهِ، أَيُحَلُّ عَنْهُ أَوْ يُنَشَّرُ؟ قَالَ: «لاَ بَأْسَ بِهِ، إِنَّمَا يُرِيدُونَ بِهِ الإِصْلاَحَ، فَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَلَمْ يُنْهَ عَنْهُ»

5765. حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ: أَوَّلُ مَنْ حَدَّثَنَا بِهِ ابْنُ جُرَيْجٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي آلُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، فَسَأَلْتُ هِشَامًا، عَنْهُ، فَحَدَّثَنَا عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُحِرَ، حَتَّى كَانَ يَرَى أَنَّهُ يَأْتِي النِّسَاءَ وَلاَ يَأْتِيهِنَّ، قَالَ سُفْيَانُ: وَهَذَا أَشَدُّ مَا يَكُونُ مِنَ السِّحْرِ، إِذَا كَانَ كَذَا، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، أَعَلِمْتِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ، أَتَانِي رَجُلاَنِ، فَقَعَدَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي، وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ الَّذِي عِنْدَ رَأْسِي لِلْآخَرِ: مَا بَالُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: وَمَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ أَعْصَمَ - رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ حَلِيفٌ لِيَهُودَ كَانَ مُنَافِقًا - قَالَ: وَفِيمَ؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاقَةٍ، قَالَ: وَأَيْنَ؟ قَالَ: فِي جُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ، تَحْتَ رَاعُوفَةٍ فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ قَالَتْ: فَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ البِئْرَ حَتَّى اسْتَخْرَجَهُ، فَقَالَ: «هَذِهِ البِئْرُ الَّتِي أُرِيتُهَا، وَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الحِنَّاءِ، وَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ» قَالَ: فَاسْتُخْرِجَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: أَفَلاَ؟ - أَيْ تَنَشَّرْتَ - فَقَالَ: «أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ شَفَانِي، وَأَكْرَهُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ شَرًّا»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏حضرت قتادہ ؓ نے بیان کیاکہ میں نے سعید بن مسیب سے کہا ایک شخص پر اگر جادو ہویااس کی بیوی تک پہنچنے سے اسے باندھ دیا گیا ہو اس کا دفعیہ کرنا اور جادو کے باطل کرنے کے لیے منتر کرنا درست ہے یا نہیں ؟ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں جادو دفع کرنے والوں کی تو نیت بخیر ہوتی ہے اور اللہ پاک نے اس بات سے منع نہیں فرمایا جس سے فائدہ ہو ۔( جب تک اس میں منتر شرکیہ الفاظ نہ ہوں۔ راز )

5765.

سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا تو آپ کو یہ خیال ہوتا کہ آپ بیویوں کے پاس گئے ہیں حالانکہ آپ ان کے پاس نہیں گئے ہوتے تھے۔ (راوئ حدیث) سفیان نے کہا کہ جب ایسا ہو تو یہ سخت قسم کا جادو ہوتا ہے۔ بہرحال آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہےکہ میں نے اللہ تعالٰی سے جو پوچھا تھا اللہ تعالی نے اس کا جواب دیا ہے؟ میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا میرے سر کے پاس بیٹھنے والے نے دوسرے سے پوچھا: اس آدمی کو کیا شکایت ہے؟ اس نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے۔ اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا: لبید بن اعصم نے جو یہودیوں کے حلیف قبیلے بنو زریق میں سے ایک منافق شخص ہے اس نے پوچھا: کس چیز میں (جادو) کیا ہے؟ اس نے کہا: کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں۔ اس نے کہا: اب وہ (جادو) کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں ہے جو زروان کنویں کے اندر رکھے ہوئے پتھر کے نیچے دفن ہے۔ اس کے بعد نبی ﷺ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور اندر سے جادو کو نکالا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ وہی کنواں ہے جو خواب میں مجھے دکھایا گیا تھا۔ اس کا پانی مہندی کے نچوڑ جیسا سرخ تھا اور اس کی کھجوروں کے سر شیطانوں کے سروں جیسے تھے۔ “ الغرض وہ جادو کنویں سے نکالا گیا سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے سوال کیا کہ آپ نے اس جادو کا توڑ کیوں نہیں کرایا؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے مجھے شفا دے دی ہے، اب میں نہیں چاہتا کہ لوگوں میں سے کسی پر اس کا شر پھیلاؤں“