قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ اللِّبَاسِ (بَابُ التَّقَنُّعِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ وَعَلَيْهِ عِصَابَةٌ دَسْمَاءُ» وَقَالَ أَنَسٌ: «عَصَبَ النَّبِيُّ ﷺعَلَى رَأْسِهِ حَاشِيَةَ بُرْدٍ»

5807. حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: هَاجَرَ نَاسٌ إِلَى الحَبَشَةِ مِنَ المُسْلِمِينَ، وَتَجَهَّزَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَى رِسْلِكَ، فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَوَتَرْجُوهُ بِأَبِي أَنْتَ؟ قَالَ: «نَعَمْ» فَحَبَسَ أَبُو بَكْرٍ نَفْسَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصُحْبَتِهِ، وَعَلَفَ رَاحِلَتَيْنِ كَانَتَا عِنْدَهُ وَرَقَ السَّمُرِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ. قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: فَبَيْنَا نَحْنُ يَوْمًا جُلُوسٌ فِي بَيْتِنَا فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، فَقَالَ قَائِلٌ لِأَبِي بَكْرٍ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقْبِلًا مُتَقَنِّعًا، فِي سَاعَةٍ لَمْ يَكُنْ يَأْتِينَا فِيهَا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِدًا لَكَ أَبِي وَأُمِّي، وَاللَّهِ إِنْ جَاءَ بِهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ إِلَّا لِأَمْرٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَ فَأَذِنَ لَهُ فَدَخَلَ، فَقَالَ حِينَ دَخَلَ لِأَبِي بَكْرٍ: «أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ» قَالَ: إِنَّمَا هُمْ أَهْلُكَ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: «فَإِنِّي قَدْ أُذِنَ لِي فِي الخُرُوجِ» قَالَ: فَالصُّحْبَةُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قَالَ: فَخُذْ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِحْدَى رَاحِلَتَيَّ هَاتَيْنِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بِالثَّمَنِ» قَالَتْ: فَجَهَّزْنَاهُمَا أَحَثَّ الجِهَازِ، وَضَعْنَا لَهُمَا سُفْرَةً فِي جِرَابٍ، فَقَطَعَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ قِطْعَةً مِنْ نِطَاقِهَا، فَأَوْكَأَتْ بِهِ الجِرَابَ، وَلِذَلِكَ كَانَتْ تُسَمَّى ذَاتَ النِّطَاقِ. ثُمَّ لَحِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ بِغَارٍ فِي جَبَلٍ يُقَالُ لَهُ ثَوْرٌ، فَمَكُثَ فِيهِ ثَلاَثَ لَيَالٍ، يَبِيتُ عِنْدَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَهُوَ غُلاَمٌ شَابٌّ لَقِنٌ ثَقِفٌ، فَيَرْحَلُ مِنْ عِنْدِهِمَا سَحَرًا، فَيُصْبِحُ مَعَ قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ كَبَائِتٍ، فَلاَ يَسْمَعُ أَمْرًا يُكَادَانِ بِهِ إِلَّا وَعَاهُ، حَتَّى يَأْتِيَهُمَا بِخَبَرِ ذَلِكَ حِينَ يَخْتَلِطُ الظَّلاَمُ، وَيَرْعَى عَلَيْهِمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ مِنْحَةً مِنْ غَنَمٍ، فَيُرِيحُهَا عَلَيْهِمَا حِينَ تَذْهَبُ سَاعَةٌ مِنَ العِشَاءِ، فَيَبِيتَانِ فِي رِسْلِهِمَا حَتَّى يَنْعِقَ بِهَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ بِغَلَسٍ، يَفْعَلُ ذَلِكَ كُلَّ لَيْلَةٍ مِنْ تِلْكَ اللَّيَالِي الثَّلاَثِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور ابن عباس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ باہر نکلے اور سر مبارک پر ایک سیاہ پٹی لگا ہواعمامہ تھا اور انس ؓنے بیان کیا کہ حضور اکرم ﷺنے اپنے سر پر چادر کا کونا لپیٹ لیا تھا ۔یہ روایت آگے موصولاً ذکر ہوگی۔

5807.

ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ چند مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور حضرت ابو بکر ؓ بھی ہجرت کی تیاری کرنے لگے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”ابھی ٹھہر جاؤ، مجھے امید ہے کہ ہجرت کی اجازت مجھے بھی دی جائے گی۔“ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! کیا آپ کو بھی ہجرت کی امید ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے نبی ﷺ کی رفاقت کے لیے خود کو روک لیا اور اپنی دو اونٹنیوں کو چار ماہ تک کیکر کے پتے کھلاتے رہے۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: ہم ایک دن دوپہر کے وقت اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ جو سر منہ ڈھانپے اس طرف تشریف لا رہے ہیں،عام طور آپ اس وقت ہمارے گھر تشریف نہیں لاتے تھے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اللہ کی قسم! آپ کسی اہم کام کے لیے اس وقت تشریف لائے ہیں، بہرحال نبی ﷺ نے مکان پر پہنچ کر اجازت طلب کی۔ آپ اندر تشریف لائے اور آتے ہی ابو بکر سے فرمایا: ”جو لوگ اس وقت تمہارے پاس ہیں انہیں یہاں سے اٹھا دو۔“ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: میرا باپ آپ پر قربان ہو: اللہ کے رسول! یہ سب آپ کے گھر کے افراد ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔“ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے رسول! پھر مجھے رفاقت کی سعادت حاصل رہے گی؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرا باپ آپ پر قربان ہو ان دو انٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں یہ قیمت سے لیتا ہوں۔“ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: پھر ہم نے جلدی جلدی دونوں سواریوں کا سامان تیار کیا، پھر دونوں کے لیے کھانا تیار کر کے توشہ دان میں رکھ دیا۔ سیدہ اسماء بنت بکر‬ ؓ ن‬ے اپنے پٹکے کے ایک ٹکڑے سے اس توشہ دان کا منہ باندھ دیا۔ اس بنا پر انہیں ذات نطاقین کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ غار ثور میں جا کر چھپ گئے۔ وہاں تین راتیں قیام فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا بیٹا عبداللہ رات کے وقت ان کے پاس رہتا تھا۔ وہ نوجوان، ذہین، اور سمجھدار تھا وہ ان کے پاس سے سحری کے وقت روانہ ہوتا اور مکہ مکرمہ میں صبح ہوتے ہی قریش کے ہاں پہنچ جاتا جیسا کہ وہ مکہ ہی میں رات کے وقت رہا ہو۔ مکہ مکرمہ میں جو بات بھی ان حضرات کے خلاف ہوتی اسے محفوظ کر لیتا پھر جونہی رات کا اندھیرا چھا جاتا غار ثور میں ان حضرات کے پاس پہنچ کر تمام تفصیلات سے آگاہ کر دیتا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ ؓ دودھ دینے والی بکریاں چراتا تھا اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو ان بکریوں کو غار ثور کی طرف ہانک کر لے جاتا۔ وہ دونوں (رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ ) بکریوں کا دودھ پی کر رات بسر کرتے، پھر عامر بن فہیرہ صبح اندھیرے وہاں سے روانہ ہو جاتا۔ ان تین راتوں میں اس نے ہر رات ایسا ہی کیا۔