تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات واشخاص کے پیش نظر مختلف گناہوں کو اکبر الکبائر قرار دیا ہے۔ مزکورہ احادیث میں والدین کی نافرمانی کو بھی بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ چونکہ والدین ظاہری صورت کے اعتبار سے بیٹے کے موجد ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ والدین کے حق کو بھی بیان کیا ہے اور ان کی حق تلفی کو اپنی حق تلفی کی طرح بڑا گناہ کہا ہے، چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کو نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا: والدین کا نافرمان، شراب کا رسیا اور دیوث (بےغیرت)۔‘‘ آپ نے دیوث کی تعریف فرمائی کہ جو ٹھنڈے پیٹ اپنے گھر میں بے حیائی اور بے غیرتی برداشت کرے۔ (مسند أحمد:128/2)
(2) والدہ نے بچے کی پرورش میں زیادہ تکلیف اور مشقت برداشت کی ہوتی ہے اور وہ نرم دل ہونے کی وجہ سے اپنی اولاد پر زور نہیں دے سکتی، اس لیے خصوصیت کے ساتھ اس کی نافرمانی سے منع فرمایا۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ نقد رقم دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ والدین کا حق ادا ہو گیا، یہ درست نہیں۔ اگر ان سے دور رہتا ہے تو فون پر ان سے رابطہ رکھنا، ان کی خیریت دریافت کرتے رہنا، ان سے ملاقات کے لیے جانا، ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنا، اپنے معاملات میں ان سے مشورہ لینا، انھیں خوش رکھنے کی کوشش کرنا یہ والدین کی جذباتی اور نفسیاتی ضروریات ہیں جن کا پورا کرنا جسمانی ضروریات سے زیادہ اہم ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے لیے اس کے والدین کو جنت یا جہنم قرار دیا ہے۔ (سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث:3662) نیز فرمایا: ’’باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے چاہے اس دروازے کو ضائع کر لو چاہے اسے محفوظ رکھ لو۔‘‘ (جامع الترمذي، البروالصلة، حدیث:1900) اسے ضائع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اس کی نافرمانی کرو گے تو تمہارے لیے جنت کا دروزہ نہیں کھلے گا، اس طرح جنت کا دروزہ کھو بیٹھو گے۔ واللہ المستعان