باب: جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Whosoever believes in Allah and the Last Day should not harm his neighbor)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6073.
حضرت ابو شریح ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب نبی ﷺ گفتگو فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”جو کوئی اللہ پر ایمان اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے۔ اور جو شخص اللہ پر ایمان اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی دستور کے مطابق ہر طرح سے عزت کرے۔“ عرض کی: اللہ کے رسول! دستور کے مطابق عزت کرنا کب تک ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن تک ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔“
تشریح:
پڑوسی کے اکرام کا حکم اشخاص، حالات اور مقام کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کا کم ازکم مرتبہ اچھے اخلاق سے پیش آنا ہے۔ حافط ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث نقل کی ہے، جس سے پڑوسی کے حقوق کا پتا چلتا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! ایک پڑوسی کے دوسرے پڑوسی پر کیا حقوق ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ’’جب وہ قرض طلب کرے تو اسے قرض دے۔ جب وہ مدد طلب کرے تو اس کا تعاون کرے۔ جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی تیماداری کرے۔ جب وہ ضرورت مند ہو تو اس کی ضرورت پوری کرے۔ جب وہ محتاج ہو تو اس کی خبر گیری کرے۔ جب اسے کوئی خوشی ملے تو اسے مبارک باد دے۔ اگر اسے کوئی مصیبت پہنچے تو اسے تسلی دے۔ جب وہ فوت ہو جائے تو اس کا جنازہ پڑھے، اس کے گھر سے اپنی دیواریں اونچی نہ کرے تاکہ قدرتی ہوا کی بندش نہ ہو (اس کی اجازت سے کیا جا سکتا ہے) جب گھر میں اچھا کھانا پکائے تو اسے بھی کچھ دے۔ اگر پھل خریدے تو اسے کچھ ہدیہ دے، اگر نہ دے سکے تو اسے پوشیدہ طورپر گھر میں لے جائے تاکہ اس کے بچوں کو تکلیف نہ ہو۔ اگر کوئی کوتاہی دیکھے تو پردہ پوشی سے کام لے۔ (فتح الباري:548/10، وسلسلة الأحادیث الضعیفة:96/6، رقم 2587) اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے، تاہم معنی کے اعتبار سے صحیح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5796
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6019
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6019
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6019
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
حضرت ابو شریح ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب نبی ﷺ گفتگو فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”جو کوئی اللہ پر ایمان اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے۔ اور جو شخص اللہ پر ایمان اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی دستور کے مطابق ہر طرح سے عزت کرے۔“ عرض کی: اللہ کے رسول! دستور کے مطابق عزت کرنا کب تک ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن تک ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔“
حدیث حاشیہ:
پڑوسی کے اکرام کا حکم اشخاص، حالات اور مقام کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کا کم ازکم مرتبہ اچھے اخلاق سے پیش آنا ہے۔ حافط ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث نقل کی ہے، جس سے پڑوسی کے حقوق کا پتا چلتا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! ایک پڑوسی کے دوسرے پڑوسی پر کیا حقوق ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ’’جب وہ قرض طلب کرے تو اسے قرض دے۔ جب وہ مدد طلب کرے تو اس کا تعاون کرے۔ جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی تیماداری کرے۔ جب وہ ضرورت مند ہو تو اس کی ضرورت پوری کرے۔ جب وہ محتاج ہو تو اس کی خبر گیری کرے۔ جب اسے کوئی خوشی ملے تو اسے مبارک باد دے۔ اگر اسے کوئی مصیبت پہنچے تو اسے تسلی دے۔ جب وہ فوت ہو جائے تو اس کا جنازہ پڑھے، اس کے گھر سے اپنی دیواریں اونچی نہ کرے تاکہ قدرتی ہوا کی بندش نہ ہو (اس کی اجازت سے کیا جا سکتا ہے) جب گھر میں اچھا کھانا پکائے تو اسے بھی کچھ دے۔ اگر پھل خریدے تو اسے کچھ ہدیہ دے، اگر نہ دے سکے تو اسے پوشیدہ طورپر گھر میں لے جائے تاکہ اس کے بچوں کو تکلیف نہ ہو۔ اگر کوئی کوتاہی دیکھے تو پردہ پوشی سے کام لے۔ (فتح الباري:548/10، وسلسلة الأحادیث الضعیفة:96/6، رقم 2587) اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے، تاہم معنی کے اعتبار سے صحیح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ابو شریح عدوی ؓ نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب رسول اللہ ﷺ گفتگو فرما رہے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے اور جوشخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی دستور کے موافق ہر طرح سے عزت کرے۔ پوچھا یا رسول اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے۔ فرمایا ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور جو اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ بہتر بات کہے یا خاموش رہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Shuraih Al-Adawi (RA) : My ears heard and my eyes saw the Prophet (ﷺ) when he spoke, "Anybody who believes in Allah and the Last Day, should serve his neighbor generously, and anybody who believes in Allah and the Last Day should serve his guest generously by giving him his reward." It was asked. "What is his reward, O Allah's Apostle?" He said, "(To be entertained generously) for a day and a night with high quality of food and the guest has the right to be entertained for three days (with ordinary food) and if he stays longer, what he will be provided with will be regarded as Sadaqa (a charitable gift). And anybody who believes in Allah and the Last Day should talk what is good or keep quite (i.e. abstain from all kinds of dirty and evil talks)."