تشریح:
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو بیٹے کی حیثیت دی تھی اور وہ آپ کے حقیقی بھانجے بھی تھے۔ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے زیادہ محبت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے تھی اور وہ بھی تمام لوگوں سے بڑھ کر آپ سے حسن سلوک کرتے تھے۔
(2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عادت تھی کہ اللہ تعالیٰ کے مال سے جو بھی ان کے ہاتھ آتا اسے فی سبیل اللہ خرچ کر دیتیں حتی کہ انھوں نے انفاق فی سبیل اللہ کے لیے مکہ مکرمہ میں ایک حویلی فروخت کر دی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا افسوس ہوا تو انھوں نے کہہ دیا کہ اگر آپ نے اپنی’’دریا دلی‘‘ پر نظر ثانی نہ کی تو میں ان کے تصرفات پر پابندی لگا دوں گا۔ بس اتنی بات پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ناراض ہوئیں اور بات چیت نہ کرنے کا عہد کر لیا۔ ایک مہربان ماں کے لیے اپنے بیٹے کو ادب سکھانے کی خاطر ایسا کرنا ضروری بھی تھا، لیکن یہ قطع تعلقی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا کو بہت گراں گزری۔ انھوں نے اپنی ماں کو راضی کرنے کے لیے بہت کوشش کی، مہاجرین کو درمیان میں لائے لیکن معاملہ جوں کا توں رہا، آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے داروں کو درمیان میں لائے تو معاملہ حل ہوا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا بہت لحاظ رکھتی تھیں۔ ان حضرات کی وساطت سے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ گئے۔ آخر کار فرمانبردار بیٹے نے اپنی ماں کو راضی کر ہی لیا۔ نذر کا کفارہ دینے کے لیے دس غلام بھیجے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں آزاد کر دیا۔ غلاموں کو آزاد کرتے کرتے ان کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کاش! میں کوئی کام کرنے کی نذر مان لیتی، جب نذر ختم ہوتی تو میں وہ کام کر کے فارغ ہو جاتی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3505)
(3) بہرحال ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کے لیے ہر تدبیر بروئے کار لانی چاہیے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نا مناسب قسم کو کفارہ ادا کر کے توڑنا ضروری ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ترک تعلق حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی تعلیم وتأدیب کے لیے تھا اور خطا کار حضرات سے ایسا ترک تعلق جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوشل بائیکاٹ فرمایا تھا۔ (فتح الباري:610/10)