تشریح:
(1) اسلام ہمیں تمام معاملات میں افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال پسندی کا حکم دیتا ہے۔ خوشی کے موقع پر ہمیں باچھیں کھول کر ہنسنے کے بجائے مسکراہٹ کا حکم دیتا ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں کہتا کہ ہر وقت ''عبوسا قمطريرا'' (منہ بنائے رکھنا) کی تصویر پیش کریں۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے اور مسکراہٹ کے انداز کو پیش کیا ہے۔ ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر حالات میں خوشی یا تعجب کے موقع پر ہلکی سی مسکراہٹ پر اکتفا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آپ ہنس پڑتے تھے حتی کہ آپ کے اگلے دانت کھل جاتے۔ کثرت سے ہنستے رہنا یا ہاتھوں پر ہاتھ مار کر لوٹ پوٹ ہونا شریعت کو پسند نہیں کیونکہ اس سے انسان کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں، آپ کی اقتدا کو اختیار کیا جائے۔ قرآن کریم نے اس سلسلے میں ان الفاظ میں رہنمائی کی ہے: ’’انہیں چاہیے کہ ہنسیں کم اور روئیں زیادہ۔‘‘ (التوبة:9: 82) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہنسنا کم کر دو کیونکہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔'‘‘ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث:4217) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام کے پاس آئے جبکہ وہ ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے، آپ نے فریاما: '’’مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تمہیں ان حقائق کا پتا چل جائے جن کا مجھے علم ہے تو تم بہت کم ہنسا کرو اور زیادہ رویا کرو۔‘‘ (الأدب المفرد، حدیث:284)