تشریح:
1۔ اس روایت میں (حَدِّثُونِيْ) اور(حَدَّثَنَا) کے الفاظ موجود ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ محدثین کی اصطلاحات ایجاد شدہ نہیں بلکہ یہ عہد نبوی میں رائج تھیں بلکہ (أنبأ) اور(نَّبَأَ) کا ثبوت تو قرآن مجید میں ہے: ﴿قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ﴾ (التحريم: 66/3) ’’اس عورت نے کہا کہ آپ کو اس کے متعلق کس نے بتایا؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے علیم و خبیر نے خبر دی ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ منکرین حدیث کی یہ ہفوات ہیں کہ علم حدیث عہد نبوی کے بعد کی ایجاد ہےاورعجمی سازش کا شاخسانہ ہے۔ ﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾
2۔ اس روایت کے مختلف طرق کو جمع کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تحدیث، اخبار اور انباء کا استعمال قوت وضعف میں برابر ہے کیونکہ اس روایت میں (حدثوني) کا لفظ ہے، کتاب التفسیر میں (اخبروني) ہے، علامہ اسماعیلی نے (أنبئوني) کے الفاظ نقل کیے ہیں، پھرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے صیغۂ اخبار استعمال کیا گیا ہے۔ ان تمام طرق کو جمع کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان تینوں الفاظ کا مرتبہ ایک ہی ہے کیونکہ تحدیث کی جگہ پر (اِخبَار) اور اخبار کی جگہ پر تحدیث اسی طرح انباء کااستعمال کیا جارہا ہے۔ اگر ان میں کوئی خاص فرق ہوتا تو اہل زبان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تواس قسم کا ردوبدل نہ کرتے۔ (فتح الباري: 191/1)
3۔ اس حدیث کے فوائد ہم آئندہ ذکر کریں گے البتہ چند ایک یہاں بیان کردیتے ہیں۔
(الف) حیا ایک پسندیدہ خصلت ہے بشرطیکہ کسی مصلحت کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔
(ب) کھجور اور اس کا پھل بابرکت چیز ہے۔
(ج) علم اللہ کا عطیہ ہے بعض دفعہ اکابرعلماء سے ایسی چیزیں مخفی رہ جاتی ہیں جو اصاغر اہل علم کو معلوم ہوتی ہیں۔