تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں الفاظ حدیث کے پیش نظر دعائے اذان کے محل کو متعین نہیں فرمایا۔ ممکن ہے کہ ان کے نزدیک دوران اذان میں کسی وقت بھی اسے پڑھنا جائز ہو۔ امام طحاوی ؒ نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اذان کا جواب دینا ضروری نہیں، اگر کوئی مذکورہ دعا پڑھ لے تو یہی کافی ہے، جبکہ دیگر روایات میں جواب اذان کے لیے صیغۂ امر وارد ہے جو عام طور پر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک مذکورہ دعا اذان سے فراغت کے بعد پڑھنی چاہیے اور اس سے پہلے دورد پڑھنے کی تاکید ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب مؤذن اذان دے تو تم اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود پڑھو، اس کے بعد میرے لیے" الوسیلہ" ملنے کی دعا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:849(384))
(2) واضح رہے کہ وسیلہ کے متعلق خود رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :’’یہ جنت میں ایک درجے کا نام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کے لائق ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں۔ جس نے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلے کی دعا کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:849(384)) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص مؤذن کی اذان سن کر مندرجہ ذیل دعا پڑھے تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے:(أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمداً عبده ورسوله، رضيت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا) میں گوہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔اس کا کوئی شریک نہیں۔یقینا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے فرستادہ ہیں۔ میں اللہ کے رب ہونے ، محمد ﷺ کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:851(386)) دعائے اذان کی ترتیب اس طرح ہونی چاہیے؛ پہلے درود پڑھا جائے، پھر دعا اور آخر میں مذکورہ کلمات کہے جائیں۔ (3) اذان کی مذکورہ دعا میں (الدرجة الرفيعة) اور (وارزقنا شفاعته يوم القيامة) کے الفاظ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، البتہ(إنك لا تخلف الميعاد) کا اضافہ بعض روایات میں ملتا ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي:110/1) لیکن محدثین نے اس اضافے کو بھی شاذ قرار دیا ہے, کیونکہ راوئ حدیث علی بن عیاش سے جتنے طرق کتب حدیث میں مروی ہیں، کسی میں بھی یہ الفاظ نہیں ملتے۔ (إرواء الغلیل:261/1)