باب:اس بارے میں کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ دہرائے جائیں
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Pronouncing the wording of Adhan for Salat (prayers) twice (in doubles))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
616.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب مسلمان (مدینہ طیبہ میں) زیادہ ہو گئے تو مشورہ ہوا کہ کسی ایسی چیز کے ذریعے سے نماز کے وقت کا اعلان ہو جسے سب لوگ سمجھ لیں۔ کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آگ کا الاؤ روشن کر دیا جائے یا ناقوس کے ذریعے سے اعلان کر دیا جائے۔ آخرکار بلال ؓ کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے کلمات ایک ایک مرتبہ کہے۔
تشریح:
امام بخاری ؒ بعض اوقات قائم کردہ عنوان کے ذریعے سے حدیث کے معنی کو متعین کرتے ہیں۔ اس قسم کے عنوان کو’’ترجمۂ شارحہ‘‘ کہا جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اذان میں شفع ہو اور عربی زبان اس کے معنی ’’ملا دینا‘‘ ہیں۔ ممکن ہے کہ کوئی خیال کرے کہ اس سے مراد ایک کلمے کو دوسرے سے ملا کر کہنا ہے۔ امام بخاری ؓ نے عنوان سے اس حدیث کے معنی متعین کیے ہیں کہ اس سے مراد کلمات اذان کو دو مرتبہ کہنا ہے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
602
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
606
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
606
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
606
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب مسلمان (مدینہ طیبہ میں) زیادہ ہو گئے تو مشورہ ہوا کہ کسی ایسی چیز کے ذریعے سے نماز کے وقت کا اعلان ہو جسے سب لوگ سمجھ لیں۔ کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آگ کا الاؤ روشن کر دیا جائے یا ناقوس کے ذریعے سے اعلان کر دیا جائے۔ آخرکار بلال ؓ کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے کلمات ایک ایک مرتبہ کہے۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ بعض اوقات قائم کردہ عنوان کے ذریعے سے حدیث کے معنی کو متعین کرتے ہیں۔ اس قسم کے عنوان کو’’ترجمۂ شارحہ‘‘ کہا جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اذان میں شفع ہو اور عربی زبان اس کے معنی ’’ملا دینا‘‘ ہیں۔ ممکن ہے کہ کوئی خیال کرے کہ اس سے مراد ایک کلمے کو دوسرے سے ملا کر کہنا ہے۔ امام بخاری ؓ نے عنوان سے اس حدیث کے معنی متعین کیے ہیں کہ اس سے مراد کلمات اذان کو دو مرتبہ کہنا ہے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مہران حذاء نے ابوقلابہ عبدالرحمن بن زید حرمی سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک ؓ سے کہ جب مسلمان زیادہ ہو گئے تو مشورہ ہوا کہ کسی ایسی چیز کے ذریعہ نماز کے وقت کا اعلان ہو جسے سب لوگ سمجھ لیں۔ کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ آگ روشن کی جائے۔ یا نرسنگا کے ذریعہ اعلان کریں۔ لیکن آخر میں بلال کو حکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دو دو دفعہ کہیں اور تکبیر کے ایک ایک دفعہ۔
حدیث حاشیہ:
اذان کے بارے میں بعض روایات میں پندرہ کلمات وارد ہوئے ہیں، جیسا کہ عوام میں اذان کا مروجہ طریقہ ہے۔ بعض روایات میں انیس کلمات آئے ہیں اوریہ اس بناپر کہ اذان ترجیع کے ساتھ دی جائے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ شہادت کے ہردو کلموں کو پہلے دو مرتبہ آہستہ آہستہ کہا جائے، پھر ان ہی کو دو دو مرتبہ بلند آواز سے کہا جائے۔ حضرت امام ترمذی ؒ نے ان لفظوں میں باب منعقد کیاہے۔ باب ماجاءفي الترجیع في الأذان۔ یعنی ترجیع کے ساتھ اذان کہنے کے بیان میں۔ پھر آپ یہاں حدیث ابومحذورہ ؓ کو لائے ہیں۔ جس سے اذان میں ترجیع ثابت ہے۔ چنانچہ خود امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں: قال أبوعیسیٰ حدیث أبي محذورة في الأذان حدیث صحیح وقد روي عنه من غیروجه وعلیه العمل بمکة وهوقول الشافعي۔یعنی اذان کے بارے میں ابومحذورہ کی حدیث صحیح ہے۔ جو مختلف طرق سے مروی ہے۔ مکہ شریف میں اسی پر عمل ہے اورامام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ امام نووی حدیث ابومحذورہ کے ذیل میں فرماتے ہیں: وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ حُجَّةٌ بَيِّنَةٌ وَدَلَالَةٌ وَاضِحَةٌ لِمَذْهَبِ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَجُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ أَنَّ التَّرْجِيعَ فِي الْأَذَانِ ثَابِتٌ مَشْرُوعٌ وَهُوَ الْعَوْدُ إِلَى الشَّهَادَتَيْنِ مَرَّتَيْنِ بِرَفْعِ الصَّوْتِ بَعْدَ قَوْلِهِمَا مَرَّتَيْنِ بِخَفْضِ الصَّوْتِ۔ ( نووی، شرح مسلم ) یعنی حدیث ابی محذورہ روشن واضح دلیل ہے کہ اذان میں ترجیع مشروع ہے اوروہ یہ ہے کہ پہلے کلمات شہادتین کو آہستہ آواز سے دودو مرتبہ ادا کرکے بعد میں بلند آواز سے پھر دو دومرتبہ دہرایا جائے۔ امام مالک اورامام شافعی اورجمہور علماءکا یہی مذہب ہے۔ حضرت ابومحذورہ کی روایت ترمذی کے علاوہ مسلم اور ابوداؤد میں بھی تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ فقہائے احناف رحمہم اللہ اجمعین ترجیع کے قائل نہیں ہیں اورانھوں نے روایات ابومحذورہ کی مختلف توجیہات کی ہیں۔ ترجیع کے ساتھ اذان کہنے کا بیان: المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وأجاب عن هذہ الروایات من لم یقل بالترجیع بأجوبة کلها مخدوشة واهیة۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی جوحضرات ترجیع کے قائل نہیں ہیں انھوں نے روایات ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کے مختلف جوابات دیئے ہیں۔ جوسب مخدوش اورواہیات ہیں۔ کوئی ان میں قابل توجہ نہیں۔ ان کی بڑی دلیل عبداللہ بن زید کی حدیث ہے۔ جس میں ترجیع کا ذکر نہیں ہے۔ علامہ مبارک پوری مرحوم اس بارے میں فرماتے ہیں کہ حدیث عبداللہ بن زید میں فجر کی اذان میں کلمات “ الصلوٰة خیرمن النوم کا بھی ذکر نہیں ہے۔ اوریہ زیادتی بھی حدیث ابومحذورہ ہی سے ثابت ہے۔ جسے محترم فقہائے احناف نے قبول فرمالیاہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ترجیع کے بارے میں بھی حدیث ابومحذورہ کی زیادتی کو قبول نہ کیا جائے۔ قلت فلذلك یقال إن الترجیع وإن لم یکن في حدیث عبداللہ بن زید فقد علمه رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ذلك أبامحذورة بعد ذلك فلما علمه رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم أبامحذورة کان زیادة علی ما فی حدیث عبداللہ بن زید فوجب استعماله۔(تحفة الأحوذي) یعنی اگرچہ ترجیع کی زیادتی حدیث عبداللہ بن زید میں مذکور نہیں ہے مگرجس طرح فجر میں آپ نے ابومحذورہ کو الصلوٰة خیرمن النوم کے الفاظ کی زیادتی تعلیم فرمائی ایسے ہی آپ نے ترجیع کی بھی زیادتی تعلیم فرمائی۔ پس اس کا استعمال ضروری ہوا، لہٰذا ایک ہی حدیث کے نصف حصہ کو لینا اورنصف کا انکار کردینا قرین انصاف نہیں ہے۔ حضرت علامہ انورشاہ کشمیری :صاحب تفہیم البخاری ( دیوبندی ) ترجیع کی اذان کے بارے میں حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ان لفظوں میں بیان فرماتے ہیں: حضرت ابومحذورہ جنھیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد مسجدالحرام کا مؤذن مقرر کیاتھا وہ اسی طرح ( ترجیع کے ساتھ ) اذان دیتے تھے جس طرح امام شافعی ؒ کا مسلک ہے۔ اوران کا یہ بھی بیان تھاکہ نبی کریم ﷺ نے انھیں اسی طرح سکھایاتھا۔ نبی کریم ﷺ کی حیات میں برابر آپ اسی طرح ( ترجیع سے ) اذان دیتے رہے اورپھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طویل دورمیں بھی آپ کا یہی عمل رہا کسی نے انھیں اس سے نہیں روکا۔ اس کے بعد بھی مکہ میں اسی طرح اذان دی جاتی رہی۔ لہٰذا اذان کا یہ طریقہ مکروہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ صاحب بحرالرائق نے یہی فیصلہ کیاہے اوراس آخری دورمیں حنفیت اورحدیث کے امام حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس فیصلہ کو درست کہاہے۔ ” ( تفہیم البخاری، کتاب الاذان، پ3، ص:50 ) یہ مختصر تفصیل اس لیے دی گئی کہ ہمارے معزز/حنفی بھائیوںکی اکثریت اوّل تو ترجیع کی اذان سے واقف ہی نہیں اور اگر اتفاقاً کہیں کسی اہل حدیث مسجد میں اسے سن پاتے ہیں تو حیرت سے سنتے ہیں۔ بلکہ بعض لوگ انکار کرتے ہوئے ناک بھوں بھی چڑھانے لگ جاتے ہیں۔ ان پر واضح ہونا چاہئیے کہ وہ اپنی ناواقفیت کی بناپر ایسا کررہے ہیں۔ رہی یہ بحث کہ ترجیع کے ساتھ اذان دینا افضل ہے یابغیرترجیع کے جیسا کہ عام طور پر مروج ہے اس لفظی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر دوطریقے جائز درست ہیں۔ باہمی اتفاق اوررواداری کے لیے اتناہی سمجھ لینا کافی وافی ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قلت هذا هوالحق إن الوجهين جائزان ثابتان مشروعان سنتان من سنن النبي صلی اللہ علیه وسلم۔(مرعاة المفاتیح، ج1، ص:422) یعنی حق یہ ہے کہ ہر دو طریقے جائز اورثابت اورآنحضرت ﷺ کی سنتوں میں سے ہیں۔ پس اس بارے میں باہمی طور پر لڑنے جھگڑنے کی کوئی بات ہی نہیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ ان فروعی مسائل پر لڑنا چھوڑکر باہمی اتفاق پیدا کریں۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): When the number of Muslims increased they discussed the question as to how to know the time for the prayer by some familiar means. Some suggested that a fire be lit (at the time of the prayer) and others put forward the proposal to ring the bell. Bilal (RA) was ordered to pronounce the wording of Adhan twice and of the Iqama once only.