Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Not feel shy of the truth to comprehend the religion)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6176.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: مومن کی مثال اس سر سبز درخت کی طرح ہے جس کے پتے نہ گرتے ہیں نہ جھڑتے ہیں۔ صحابہ کرام نے کہا: یہ فلاں درخت ہے یہ فلاں درخت ہے۔ میں نے کھجور کا درخت بتانے کا ارادہ کیا میں چونکہ کمسن نوخیز تھا اس لیے میں نے بتانے سے شرم محسوس کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ درخت کھجور کا ہے۔“ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا کہ میں نے اس بات کا تذکرہ حضرت عمر ؓ سے کیا تو انہوں نے فرمایا: اگر تم جواب دے دیتے تو مجھے اتنا اتنا مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔
تشریح:
(1) کھجور کے درخت کی مسلمان سے مشابہت کی وجہ یہ ہے کہ یہ درخت مسلمان کی طرح بہت نفع آور ہے اس کی کوئی چیز رائیگاں نہیں جاتی۔ (2) اس حدیث میں وضاحت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ شرم کے مارے خاموش رہے اور صحیح جواب ذہن میں آ جانے کے باوجود بتانے سے حیا مانع رہی جس کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بے حد افسوس ہوا اور اپنے لخت جگر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی شرم کو انہوں نے پسند نہ فرمایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا جواب دینے میں بے محل حیا سے کام لیا، اگر بتا دیتے تو ہونہار بیٹے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تحسین فرماتے۔ بہرحال اس قسم کی حیا اچھی نہیں جو کسی کی نیک نامی کے لیے رکاوٹ بن جائے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5896
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6122
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6122
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6122
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
اس میں کوئی شک نہیں کہ حیا خیر ہی خیر ہے لیکن دینی مسائل اور حقائق کے متعلق سوال کرنے سے حیا کرنا انتہائی قابل مذمت ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کی حیا کو اس عنوان کے تحت بیان کیا ہے اور اس کے قابل مذمت ہونے کو احادیث سے ثابت کیا ہے۔ گویا حیا کے قابل تعریف ہونے سے کچھ صورتیں مستثنیٰ ہیں جو اس عنوان کے تحت بیان کی جائیں گی۔ واللہ المستعان
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: مومن کی مثال اس سر سبز درخت کی طرح ہے جس کے پتے نہ گرتے ہیں نہ جھڑتے ہیں۔ صحابہ کرام نے کہا: یہ فلاں درخت ہے یہ فلاں درخت ہے۔ میں نے کھجور کا درخت بتانے کا ارادہ کیا میں چونکہ کمسن نوخیز تھا اس لیے میں نے بتانے سے شرم محسوس کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ درخت کھجور کا ہے۔“ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا کہ میں نے اس بات کا تذکرہ حضرت عمر ؓ سے کیا تو انہوں نے فرمایا: اگر تم جواب دے دیتے تو مجھے اتنا اتنا مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔
حدیث حاشیہ:
(1) کھجور کے درخت کی مسلمان سے مشابہت کی وجہ یہ ہے کہ یہ درخت مسلمان کی طرح بہت نفع آور ہے اس کی کوئی چیز رائیگاں نہیں جاتی۔ (2) اس حدیث میں وضاحت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ شرم کے مارے خاموش رہے اور صحیح جواب ذہن میں آ جانے کے باوجود بتانے سے حیا مانع رہی جس کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بے حد افسوس ہوا اور اپنے لخت جگر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی شرم کو انہوں نے پسند نہ فرمایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا جواب دینے میں بے محل حیا سے کام لیا، اگر بتا دیتے تو ہونہار بیٹے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تحسین فرماتے۔ بہرحال اس قسم کی حیا اچھی نہیں جو کسی کی نیک نامی کے لیے رکاوٹ بن جائے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محارب بن دثار نے، کہا کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓسے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مومن کی مثال اس سرسبز درخت کی ہے، جس کے پتے نہیں چھڑتے۔ صحابہ نے کہا کہ یہ فلاں درخت ہے۔ یہ فلاں درخت ہے۔ میرے دل میں آیا کہ کہوں کہ یہ کھجور کا درخت ہے لیکن چونکہ میں نوجوان تھا، اس لئے مجھ کو بولتے ہوئے حیا آئی۔ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ اور اسی سند سے شعبہ سے روایت ہے کہ کہا ہم سے خبیب بن عبدالرحمن نے، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابن عمرؓ نے اسی طرح بیان کیا اور یہ اضافہ کیا کہ پھر میں نے اس کا ذکر عمر ؓ سے کیا تو انہوں نے کہا اگر تم نے کہہ دیا ہوتا تو مجھے اتنا اتنا مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی حاصل ہوتی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری نے اسی روایت سے باب کا مطلب نکالا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ کی اس شرم کوپسند نہ کیا جو دین کی بات بتلانے میں انہوں نے کیا ۔ بے محل شرم کرنا غلط ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "The example of a believer is like a green tree, the leaves of which do not fall." The people said. "It is such-and-such tree: It is such-and-such tree." I intended to say that it was the datepalm tree, but I was a young boy and felt shy (to answer). The Prophet (ﷺ) said, "It is the date-palm tree." Ibn 'Umar (RA) added, " I told that to 'Umar who said, 'Had you said it, I would have preferred it to such-and such a thing."