تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد عبدالقیس کی آمد کے موقع پر انہیں خوش آمدید کہا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی مہمان یا معزز وفد آئے تو استقبال کے طور پر انہیں مرحبا کہنا چاہیے تاکہ انہیں اجنبیت کے بجائے اپنائیت کا احساس ہو اور وہ بے تکلفی کے انداز میں اپنا ما فی الضمیر ظاہر کر سکیں۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی مقصد سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اسلام ایک زندہ مذہب ہے، لہذا جو لوگ اسے اختیار کرتے ہیں، انہیں دوسروں سے خندہ پیشانی کا برتاؤ کرنا چاہیے۔ اپنے قول و کردار سے ایسا رویہ نہیں اختیار کرنا چاہیے جس سے دوسروں کو نفرت ہو اور وہ اسلام اور اہل اسلام کے قریب آنے سے ہچکچاہٹ محسوس کریں۔