Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Raising the voice in pronouncing the Adhan)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ نے ( اپنے مؤذن سے ) کہا کہ سیدھی سادھی اذان دیا کر، ورنہ ہم سے علیحدہ ہو جا۔
619.
حضرت عبداللہ بن عبدالرحمٰن ؓ سے روایت ہے، ان سے حضرت ابوسعید خدری ؓ نے کہا تھا: میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے، اس لیے تم جب اپنی بکریوں کے ہمراہ جنگل میں رہو اور نماز کے لیے اذان دو تو بلند آواز سے اذان دیا کرو، اس لیے کہ مؤذن کی آواز کو جو کوئی جن و انس یا اور کوئی سنے گا تو وہ اس کے لیے قیامت کے دن گواہی دے گا۔ حضڑت ابوسعید خدری ؓ نے فرمایا: میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔
تشریح:
(1) اذان بآواز بلند کہنا اپنے اندر بڑی فضیلت رکھتا ہے۔ یہ حکم جنگل کی اذان میں بھی وارد ہے۔ اگر وہاں انسان نہ ہوں، تب بھی وہاں جہاں تک آواز پہنچے گی اس کو سننے والے قیامت کے دن گواہی دیں گے، لیکن اس بلند آواز میں نغمہ سرائی کا پہلو بالکل نہیں ہونا چاہیے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اکیلا آدمی اذان دے سکتا ہے۔ سعید بن مسیب ؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص جنگل میں نماز پڑھے تو اس کے دائیں بائیں فرشتے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں اور اگر اذان اور اقامت کہہ کر نماز پڑھے تو اس کے پیچھے پہاڑوں کے برابر کثیر تعداد میں فرشتے جمع ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ (موطأ إمام مالك، باب النداء في السفر، حدیث:164) (2) ایک حدیث میں ہے کہ نماز باجماعت کا ثواب پچیس گنا ہے اور اگر جنگل میں رکوع وسجود اچھی طرح کرکے پڑھے تو اسے پچاس گنا ثواب ملے گا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:560) لیکن یہ اجرو ثواب کسی اتفاقی صورت کے لیے ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بلا وجہ آبادی کی مساجد کو چھوڑ کر زیادہ ثواب لینے کی نیت سے کسی جنگل کا رخ کرے اور وہاں نمازیں شروع کردے۔ اگر ایسا کرنا صحیح ہوتا تو اسلاف سے ضرور منقول ہوتا۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
605
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
609
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
609
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
609
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام نسائی رحمہ اللہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:" بآواز بلند اذان دینے کا ثواب۔"اذان اونچی آواز سے دینی چاہیے لیکن اس میں تصنع اور موسیقی والی سر نہیں ہونی چاہیے۔حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے مؤذن نے گانے کی طرز پر موسیقی کے ساتھ اذان دی تھی،اس لیے آپ نے اسے تنبیہ فرمائی کہ اذان بآواز بلند ہو لیکن اس میں موسیقی وغیرہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ سادگی کے ساتھ بآواز بلند اذان دی جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اس اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ (2/52) میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔(فتح الباری:2/116)
حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ نے ( اپنے مؤذن سے ) کہا کہ سیدھی سادھی اذان دیا کر، ورنہ ہم سے علیحدہ ہو جا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عبدالرحمٰن ؓ سے روایت ہے، ان سے حضرت ابوسعید خدری ؓ نے کہا تھا: میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے، اس لیے تم جب اپنی بکریوں کے ہمراہ جنگل میں رہو اور نماز کے لیے اذان دو تو بلند آواز سے اذان دیا کرو، اس لیے کہ مؤذن کی آواز کو جو کوئی جن و انس یا اور کوئی سنے گا تو وہ اس کے لیے قیامت کے دن گواہی دے گا۔ حضڑت ابوسعید خدری ؓ نے فرمایا: میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اذان بآواز بلند کہنا اپنے اندر بڑی فضیلت رکھتا ہے۔ یہ حکم جنگل کی اذان میں بھی وارد ہے۔ اگر وہاں انسان نہ ہوں، تب بھی وہاں جہاں تک آواز پہنچے گی اس کو سننے والے قیامت کے دن گواہی دیں گے، لیکن اس بلند آواز میں نغمہ سرائی کا پہلو بالکل نہیں ہونا چاہیے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اکیلا آدمی اذان دے سکتا ہے۔ سعید بن مسیب ؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص جنگل میں نماز پڑھے تو اس کے دائیں بائیں فرشتے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں اور اگر اذان اور اقامت کہہ کر نماز پڑھے تو اس کے پیچھے پہاڑوں کے برابر کثیر تعداد میں فرشتے جمع ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ (موطأ إمام مالك، باب النداء في السفر، حدیث:164) (2) ایک حدیث میں ہے کہ نماز باجماعت کا ثواب پچیس گنا ہے اور اگر جنگل میں رکوع وسجود اچھی طرح کرکے پڑھے تو اسے پچاس گنا ثواب ملے گا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:560) لیکن یہ اجرو ثواب کسی اتفاقی صورت کے لیے ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بلا وجہ آبادی کی مساجد کو چھوڑ کر زیادہ ثواب لینے کی نیت سے کسی جنگل کا رخ کرے اور وہاں نمازیں شروع کردے۔ اگر ایسا کرنا صحیح ہوتا تو اسلاف سے ضرور منقول ہوتا۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے (اپنے مؤذن سے) کہا تھا کہ صاف اور سیدھی سیدھی اذان کہو، بصورت دیگر ہم سے الگ ہو جاؤ۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی صعصعہ انصاری سے خبر دی، پھر عبدالرحمن مازنی اپنے والد عبداللہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے انھیں خبر دی کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ صحابی نے ان سے بیان کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے۔ اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو۔ کیونکہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔ حضرت ابوسعید ؓ نے فرمایا کہ یہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت خلیفۃ المسلمین عمربن عبدالعزیز ؒ کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالاہے۔ اس مؤذن نے تال اور سرکے ساتھ گانے کی طرح اذان دی تھی، جس پر اس کویہ سرزنش کی گئی۔ پس اذان میں ایسی بلندآواز اچھی نہیں جس میں تال اورسرپیدا ہو۔ بلکہ سادی طرح بلندآواز سے مستحب ہے۔ حدیث سے جنگلوں، بیابانوں میں اذان کی آواز بلند کرنے کی فضیلت ثابت ہوئی تو وہ گڈریے اورمسلمان چرواہے بڑے ہی خوش نصیب ہیں جو اس پر عمل کریں سچ ہے
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdul Rahman (RA): Abu Sa'id Al-Khudri told my father, "I see you liking sheep and the wilderness. So whenever you are with your sheep or in the wilderness and you want to pronounce Adhan for the prayer raise your voice in doing so, for whoever hears the Adhan, whether a human being, a jinn or any other creature, will be a witness for you on the Day of Resurrection." Abu Said added, "I heard it (this narration) from Allah's Apostle."