تشریح:
ظاہر کے اعتبار سے اس حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا کیونکہ عنوان طلوع فجر کے بعد اذان دینے سے متعلق ہے جبکہ حدیث اقامت اور اذان کے درمیان دورکعت پڑھنے کے بارے میں ہے۔ دراصل امام بخاری ؒ کا اپنی صحیح میں یہ اسلوب ہے کہ بعض اوقات ایک حدیث کے ذریعے سے کسی دوسری حدیث کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے، چنانچہ اس مقام پر بھی آپ نے یہی انداز اختیار کیا ہے کہ آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک دوسری حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسی سے عنوان ثابت ہوتا ہے، چنانچہ ان سے روایت ہے کہ جب مؤذن نماز صبح کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوتے اور نماز فجر ادا کرنے سے پہلے ہلکی پھلکی دورکعت ادا کرتے۔ سنتوں کی یہ ادائیگی فجر کے روشن ہونے کے بعد ہوتی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:626) اس روایت میں وضاحت ہے کہ صبح کی نماز کےلیے طلوع فجر کے بعد اذان دی جاتی تھی۔