باب: لفظ ” ویلک “ یعنی تجھ پر افسوس ہے کہنا درست ہے
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Saying "Wailaka.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6218.
حضرت ابو خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک دن نبی ﷺ کچھ تقسیم کر رہے تھے کہ بنو تمیم کے ایک شخص ذو الخو یصرہ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ عدل وانصاف کریں۔ آپ نے فرمایا: ”افسوس تجھ ہر! اگر میں ہی انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا؟“ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے عرض کی: آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں۔ آپ نے فرمایا: ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیئے، اس کے کچھ ساتھی ہوں گے تم ان کی نماز کے مقابلے میں اپنے روزوں خو حقیر سمجھو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکل چکے ہوں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے تیر کے پھل کو دیکھا جائےتو اس پر کوئی نشان نہیں ملے گا اس کی لکڑی کو دیکھا جائے توا س میں بھی کچھ نہیں ملے گا، پھر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس پر بھی کوئی نشان نہیں ملے گا، حالانکہ وہ تیر شکار کے خون اور غلاظت سے گزر کر باہر آیا ہے۔ یہ لوگ اس وقت ظاہر ہوں گے جب لوگوں میں پھوٹ پڑ چکی ہوگی۔ ان کی نشانی یہ ہو گی کہ ان میں ایک آدمی ہوگا جس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح ہوگا یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح حرکت کرے گا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی ﷺ سے یہ حدیث سنی اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب ان سے جنگ کی تھی تو میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ مقتولین میں وہ شخص تلاش کیا گیا تو وہ انھی صفات کا حامل تھا جو نبی ﷺ نے بیان کی تھیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5937
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6163
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6163
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6163
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
اکثر اہل لغت کی رائے ہے کہ کلمۂ ویل ہلاکت کے لیے اور لفظ ويح کلمۂ ترحم ہے جبکہ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ ویل اور ویح دونوں ہم معنی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی رجحان معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ہم آئندہ اس کی وضاحت کریں گے۔
حضرت ابو خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک دن نبی ﷺ کچھ تقسیم کر رہے تھے کہ بنو تمیم کے ایک شخص ذو الخو یصرہ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ عدل وانصاف کریں۔ آپ نے فرمایا: ”افسوس تجھ ہر! اگر میں ہی انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا؟“ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے عرض کی: آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں۔ آپ نے فرمایا: ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیئے، اس کے کچھ ساتھی ہوں گے تم ان کی نماز کے مقابلے میں اپنے روزوں خو حقیر سمجھو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکل چکے ہوں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے تیر کے پھل کو دیکھا جائےتو اس پر کوئی نشان نہیں ملے گا اس کی لکڑی کو دیکھا جائے توا س میں بھی کچھ نہیں ملے گا، پھر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس پر بھی کوئی نشان نہیں ملے گا، حالانکہ وہ تیر شکار کے خون اور غلاظت سے گزر کر باہر آیا ہے۔ یہ لوگ اس وقت ظاہر ہوں گے جب لوگوں میں پھوٹ پڑ چکی ہوگی۔ ان کی نشانی یہ ہو گی کہ ان میں ایک آدمی ہوگا جس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح ہوگا یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح حرکت کرے گا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی ﷺ سے یہ حدیث سنی اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب ان سے جنگ کی تھی تو میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ مقتولین میں وہ شخص تلاش کیا گیا تو وہ انھی صفات کا حامل تھا جو نبی ﷺ نے بیان کی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبدالرحمن بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، ان سے امام اوزاعی نے، ان سے زہری نے، ان سے ابوسلمہ اور ضحاک نے اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کچھ تقسیم کر رہے تھے۔ بنی تمیم کے ایک شخص ذوالخویصرۃ نے کہا یا رسول اللہ! انصاف سے کام لیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا افسوس! اگر میں ہی انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا۔ حضرت عمر ؓ نے کہا، آنحضرت ﷺ مجھے اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ اس کے کچھ (قبیلہ والے) ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ تم ان کی نماز کے مقابلہ میں اپنی نماز کومعمولی سمجھو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزے کو معمولی سمجھو گے لیکن وہ دین سے اس طرح نکل چکے ہوں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ تیرکے پھل میں دیکھا جائے تو اس پر بھی کوئی نشان نہیں ملے گا۔ اس کی لکڑی پر دیکھا جائے تو اس پر بھی کوئی نشان نہیں ملے گا۔ پھر اس کے دندانوں میں دیکھا جائے اور اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا پھر اس کے پر میں دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ (یعنی شکار کے جسم کو پار کرنے کا کوئی نشان) تیر لید اور خون کو پار کرکے نکل چکا ہوگا۔ یہ لوگ اس وقت پیدا ہوں گے جب لوگوں میں پھوٹ پڑجائے گی۔ (ایک خلیفہ پر متفق نہ ہوں گے) ان کی نشانی ان کا ایک مرد (سردار لشکر) ہوگا۔ جس کا ایک ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہوگا یا (فرمایا) گوشت کے لوتھڑے کی طرح تھل تھل ہل رہا ہوگا۔ ابو سعید ؓ نے بیان کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ سے یہ حدیث سنی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں حضرت علی ؓ کے ساتھ تھا۔ جب انہوں نے ان خارجیوں سے (نہروان میں) جنگ کی تھی۔ مقتولین میں تلاش کی گئی تو ایک شخص انہیں صفات کو لایا گیا جو حضور اکرم ﷺ نے بیان کی تھیں۔ اس کا ایک ہاتھ پستان کی طرح کا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت اور تقویٰ اورزہد کچھ کام نہیں آتا جب تک اللہ اور اس کے رسول اور اہل بیت سے محبت نہ رکھے۔ محبت رسول آپ کی سنت پر عمل کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ ۔ لوگ اہل دنیا کچھ بھی کہیں مگر حدیث شریف نہ چھوٹے ہر وقت حدیث سے تعلق رہے۔ سفر ہو یا حضر، صبح ہو یا شام حدیث کا مطالعہ حدیث پر عمل کرنے کا شوق غالب رہے، حدیث کی کتاب سے محبت رہے۔ حدیث پر چلنے والوں سے الفت رہے۔ حدیث کو شائع کرنے والوں سے محبت کا شیوہ رہے۔ زندگی حدیث پر، موت حدیث پر، ہر وقت بغل میں حدیث یہی تمغہ رہے۔ یا اللہ! ہمارے پاس کوئی نیک عمل نہیں ہے جو تیری درگاہ میں پیش کرنے کے قابل ہو۔ یہی قرآن پاک ثنائی کی خدمت اور صحیح بخاری کا ترجمہ ہمارے پاس ہے اور تیرے فضل سے بخاری کے ساتھ صحیح مسلم کی خدمت بھی ہے جو تیرے پاس لے کر آئیں گے۔ تو ہی یا اللہ رحیم کریم اور قبول کرنے والا ہے۔ (راز)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): While the Prophet (ﷺ) was distributing (war booty etc.) one day, Dhul Khawaisira, a man from the tribe of Bani Tamim, said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Act justly." The Prophets said, "Woe to you! Who else would act justly if I did not act justly?" 'Umar said (to the Prophet (ﷺ) ), "Allow me to chop his neck off." The Prophet (ﷺ) said, "No, for he has companions (who are apparently so pious that) if anyone of (you compares his prayer with) their prayer, he will consider his prayer inferior to theirs, and similarly his fasting inferior to theirs, but they will desert Islam (go out of religion) as an arrow goes through the victim's body (games etc.) in which case if its Nasl is examined nothing will be seen thereon, and if its Nady is examined, nothing will be seen thereon, and if its Qudhadh is examined, nothing will be seen thereon, for the arrow has gone out too fast even for the excretions and blood to smear over it. Such people will come out at the time of difference among the (Muslim) people and the sign by which they will be recognized, will be a man whose one of the two hands will look like the breast of a woman or a lump of flesh moving loosely." Abu Said added, "I testify that I heard that from the Prophet (ﷺ) and also testify that I was with 'Ali when 'Ali fought against those people. The man described by the Prophet (ﷺ) was searched for among the killed, and was found, and he was exactly as the Prophet (ﷺ) had described him." (See Hadith No. 807, Vol. 4)