باب: لفظ ” ویلک “ یعنی تجھ پر افسوس ہے کہنا درست ہے
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Saying "Wailaka.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6219.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! میں تو بلاک ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: تیری خرابی ہو! اس نے کہا: میں نے رمضان میں (بحالت روزہ) اپنی بیوی سے صحبت کرلی ہے آپ نے فرمایا: ”ایک غلام آزاد کرو۔“ اس نےکہا میرے پاس غلام نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”پھر مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ۔“ اس نے کہا: اس کی مجھ میں طاقت نہیں آپ نے فرمایا: ”پھر ساٹھ مسکنیوں کو کھانا کھلا۔“ اس نے کہا: میں اس قدر کھانا نہیں پاتا۔ اس دوران میں کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ لے لو اور اسے صدقہ کردو۔“ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا (میں) اپنے بال بچوں کے علاوہ دوسروں پر(صدقہ کروں؟) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے! مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہیں ہے۔ نبی ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک دکھائی دینے لگے، آپنے فرمایا: ”جاؤ اسے تم ہی لے لو۔“ زہری سے روایت کرنے میں یونس نے اوزاعی کی متابعت کی ہے۔ عبدالرحمن بن خالد نے زہری سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے ویحك کے ویلك فرمایا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5938
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6164
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6164
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6164
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
اکثر اہل لغت کی رائے ہے کہ کلمۂ ویل ہلاکت کے لیے اور لفظ ويح کلمۂ ترحم ہے جبکہ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ ویل اور ویح دونوں ہم معنی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی رجحان معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ہم آئندہ اس کی وضاحت کریں گے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! میں تو بلاک ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: تیری خرابی ہو! اس نے کہا: میں نے رمضان میں (بحالت روزہ) اپنی بیوی سے صحبت کرلی ہے آپ نے فرمایا: ”ایک غلام آزاد کرو۔“ اس نےکہا میرے پاس غلام نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”پھر مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ۔“ اس نے کہا: اس کی مجھ میں طاقت نہیں آپ نے فرمایا: ”پھر ساٹھ مسکنیوں کو کھانا کھلا۔“ اس نے کہا: میں اس قدر کھانا نہیں پاتا۔ اس دوران میں کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ لے لو اور اسے صدقہ کردو۔“ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا (میں) اپنے بال بچوں کے علاوہ دوسروں پر(صدقہ کروں؟) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے! مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہیں ہے۔ نبی ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک دکھائی دینے لگے، آپنے فرمایا: ”جاؤ اسے تم ہی لے لو۔“ زہری سے روایت کرنے میں یونس نے اوزاعی کی متابعت کی ہے۔ عبدالرحمن بن خالد نے زہری سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے ویحك کے ویلك فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل ابو الحسن نے بیان کیا، کہا ہم کو حضرت عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو امام اوزاعی نے خبر دی، کہا کہ مجھ کو ابن شہاب نے خبردی، بیان کیا ان سے حمید بن عبدالرحمن نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہ ایک صحابی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا اورعرض کیا یا رسول اللہ! میں تو تباہ ہو گیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، افسوس (کیا بات ہوئی؟) انہوں نے کہا کہ میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کرلی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر ایک غلام آزاد کر۔ انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس غلام ہے ہی نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر دو مہینے متواتر روزے رکھ۔ اس نے کہا کہ اس کی مجھ میں طاقت نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا۔ کہا کہ اتنا بھی میں اپنے پاس نہیں پاتا۔ اس کے بعد کھجور کا ایک ٹوکرا آیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسے لے اور صدقہ کر دے۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا اپنے گھر والوں کے سوا کسی اور کو؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! سارے مدینہ کے دونوں طنابوں یعنی دونوں کناروں میں مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہیں۔ آنحضرت ﷺ اس پر اتنا ہنس دیئے کہ آپ کے آگے کے دندان مبارک دکھائی دینے لگے۔ فرمایا کہ جاؤ تم ہی لے لو۔ اوازاعی کے ساتھ اس حدیث کو یونس نے بھی زہری سے روایت کیا اور عبدالرحمن بن خالد نے زہری سے اس حدیث میں بجائے لفظ ویحك کے لفظ ویلك روایت کیا ہے (معنی دونوں کے ایک ہی ہیں)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : A man came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I am ruined!" The Prophet (ﷺ) said, "Waihaka (May Allah be merciful to you) !" The man said, "I have done sexual intercourse with my wife while fasting in Ramadan." The Prophet (ﷺ) said, "Manumit a slave." The man said, " I cannot afford that. " The Prophet (ﷺ) said; "Then fast for two successive months." The man said, " I have no power to do so." The Prophet (ﷺ) said, "Then feed sixty poor persons." The man said, "I have nothing (to feed sixty persons). Later a basket full of dates were brought to the Prophet (ﷺ) and he said (to the man), "Take it and give it in charity." The man said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Shall I give it to people other than my family? By Him in Whose Hand my life is, there is nobody poorer than me in the whole city of Medina." The Prophet (ﷺ) smiled till his premolar teeth became visible, and said, "Take it." Az-Zuhri said (that the Prophet (ﷺ) said). "Wailaka."