تشریح:
(1) اس حدیث کو "حدیث مسيئ الصلاة'' کہتے ہیں۔ یہ شخص جلدی جلدی نماز پڑھتا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آہستہ آہستہ نماز پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ اس سے پوری نماز کی تعلیم مقصود نہیں بلکہ جو چیزیں قابل اصلاح تھیں ان کی اصلاح فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں جلسۂ استراحت اور تشہد وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔
(2)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے اپنا مدعا ثابت کیا ہے کیونکہ اس میں سلام کے جواب میں "وعلیک السلام" کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ پہلی حدیث میں جلسۂ استراحت کا ذکر نہیں تھا، دوسری حدیث میں اس کو ثابت کیا ہے کیونکہ اس حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ واللہ أعلم