تشریح:
(1) متعدد روایات میں اذان سننے کے بعد فورا جماعت کےلیے مسجد میں آنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ مسجد میں جماعت کا انتظار کرنے والے کے مترادف شمار کیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کا گھر مسجد کے قریب ہے اور وہ اذان سننے کے فوراً بعد مسجد میں آنے کے بجائے اپنے گھر میں اقامت کا انتظار کرتا ہے تو اسے نماز کےلیے جلدی چلے آنے ہی کا ثواب ملے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ گھر میں نماز کے لیے اقامت کا انتظار فرماتے تھے۔ بعض علماء کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ چونکہ امام تھے اور امام اذان سننے کے بعد فوراً مسجد میں چلے آنے کا پابند نہیں ہے، اس لیے گھر میں تکبیر کا انتظار کرنا امام کے ساتھ خاص ہے، کوئی دوسرا اس خصوصیت میں اس کا شریک نہیں۔
(2) اس حدیث میں تکبیر کے اعتبار سے اذان فجر کو پہلی اذان کہا گیا ہے۔ گویا اس اذان کی دو حیثیتیں ہیں: سحری کی اذان کے مقابلے میں اسے اذان ثانی کہا جاتا ہے اور جماعت کے لیے اقامت کے اعتبار سے اسے اذان اولیٰ کہا گیا ہے، نیز بیہقی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اذان کے بعد مسجد میں تشریف لے جاتے، اگر مسجد میں نمازی کم ہوتے تو وہیں بیٹھ کر انتظار فرماتے، جب نمازی جمع ہوجاتے تو نماز پڑھاتے۔ یہ حدیث درج بالا حدیث کے مخالف نہیں، کیونکہ بیہقی کی روایت کا تعلق نماز صبح کے علاوہ دوسری نمازوں سے ہے اور حدیث بالا کا تعلق نماز صبح سے ہے۔ اور ممکن ہے آپ مؤذن کی اطلاع کے بعد مسجد میں تشریف لے جاتے ہوں اور وہاں جا کر نمازیوں کا انتظار فرماتے ہوں۔ (فتح الباري:144/2)