Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Talking during the Adhan)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سلیمان بن صرد صحابی نے اذان کے دوران بات کی اور حضرت حسن بصری نے کہا کہ اگر ایک شخص اذان یا تکبیر کہتے ہوئے ہنس دے تو کوئی حرج نہیں۔
626.
حضرت عبداللہ بن حارث سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت ابن عباس ؓ نے بارش کے دن خطبہ دینے کا ارادہ کیا۔ جب مؤذن حي على الصلاة تک پہنچا تو انہوں نے اسے حکم دیا کہ اعلان کر ’’ہر شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ لے۔‘‘ (یہ سن کر) لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: یہ کام اس شخص نے کیا ہے جو ہم سے بہتر تھا۔ اور یہ (نماز جمعہ) عزیمت (ضروری) ہے۔
تشریح:
(1) اس روایت میں دورانِ اذان میں، مؤذن کے کلام کرنے کی صراحت نہیں ہے تو اس کی عنوان سے مطابقت بایں طور ہے کہ اذان کے درمیان کلام کرنے سے کلمات اذان کا نسق اور اسلوب متاثر ہوتا ہے۔ حي على الصلاة کے بعد یا اس کی جگہ ألا صلوا في الرحال کہنے سے بھی اذان معہود کا اسلوب متاثر ہوگا، لیکن اس کے باوجود اذان صحیح ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود بھی یہی ہے کہ دوران اذان میں اگر ایسا کلام کیا جائے جس سے اذان کا نظم متاثر ہو، اس سے اذان کے صحیح ہونے میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ (2) روایت کے آخر میں ہم نے ترجمہ کرتے وقت قوسین کے اندر نماز جمعہ کا اضافہ کیا ہے، کیونکہ ابن عباس ؓ سے مروی ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:901) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ألا صلوا في الرحال کے الفاظ کہے جائیں تو حي على الصلاة کے پیش نظر بارش اور کیچڑ کے باوجود جمعہ کی نماز کے لیے حاضر ہونا ضروری ہے، اگرچہ مشقت ہی کیوں نہ برداشت کرنی پڑے ألا صلوا في الرحال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بارش ایک ایسا عذر ہے جس کے پیش نظر ایک عزیمت رخصت میں بدل جاتی ہے۔ (فتح الباري: 2/494) (3) بارش یا کیچڑ کی وجہ سے ألا صلوا في الرحال کے الفاظ حي على الصلاة کی جگہ یا اس کے بعد یا اذان سے فراغت کے بعد کہے جائیں؟اس کی تفصیل اور راجح موقف حدیث:632 کے تحت بیان ہوگا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
612
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
616
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
616
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
616
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اذان کا حکم نماز جیسا نہیں نماز میں گفتگو کرنا یا ہنسنا منع ہے،اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے جبکہ اذان میں بوقت ضرورت گفتگو اور ہنس دینے کی گنجائش ہے۔اس سے اذان میں کوئی خلل نہیں آتا۔اس سلسلے میں امام بخاری نے دو اثر پیش کیے ہیں:٭حضرت سلیمان بن صرد کے اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں متصل سند سے بیان کیا ہےکہ وہ چھاؤنی میں اذان دیتے تھے اور دوران اذان میں اپنے غلام کو کسی ضرورت سے آگاہ کردیتے تھے۔٭حضرت حسن بصری کا اثر متصل سند سے ہمیں نہیں مل سکا۔مصنف ابن ابی شیبہ میں کچھ آثار ملتے ہیں لیکن ان میں ہنسنے کا ذکر نہیں بلکہ دوران اذان میں گفتگو کے جواز پر رہنمائی ملتی ہے۔(فتح الباری:2/129)
اور سلیمان بن صرد صحابی نے اذان کے دوران بات کی اور حضرت حسن بصری نے کہا کہ اگر ایک شخص اذان یا تکبیر کہتے ہوئے ہنس دے تو کوئی حرج نہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن حارث سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت ابن عباس ؓ نے بارش کے دن خطبہ دینے کا ارادہ کیا۔ جب مؤذن حي على الصلاة تک پہنچا تو انہوں نے اسے حکم دیا کہ اعلان کر ’’ہر شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ لے۔‘‘ (یہ سن کر) لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: یہ کام اس شخص نے کیا ہے جو ہم سے بہتر تھا۔ اور یہ (نماز جمعہ) عزیمت (ضروری) ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت میں دورانِ اذان میں، مؤذن کے کلام کرنے کی صراحت نہیں ہے تو اس کی عنوان سے مطابقت بایں طور ہے کہ اذان کے درمیان کلام کرنے سے کلمات اذان کا نسق اور اسلوب متاثر ہوتا ہے۔ حي على الصلاة کے بعد یا اس کی جگہ ألا صلوا في الرحال کہنے سے بھی اذان معہود کا اسلوب متاثر ہوگا، لیکن اس کے باوجود اذان صحیح ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود بھی یہی ہے کہ دوران اذان میں اگر ایسا کلام کیا جائے جس سے اذان کا نظم متاثر ہو، اس سے اذان کے صحیح ہونے میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ (2) روایت کے آخر میں ہم نے ترجمہ کرتے وقت قوسین کے اندر نماز جمعہ کا اضافہ کیا ہے، کیونکہ ابن عباس ؓ سے مروی ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:901) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ألا صلوا في الرحال کے الفاظ کہے جائیں تو حي على الصلاة کے پیش نظر بارش اور کیچڑ کے باوجود جمعہ کی نماز کے لیے حاضر ہونا ضروری ہے، اگرچہ مشقت ہی کیوں نہ برداشت کرنی پڑے ألا صلوا في الرحال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بارش ایک ایسا عذر ہے جس کے پیش نظر ایک عزیمت رخصت میں بدل جاتی ہے۔ (فتح الباري: 2/494) (3) بارش یا کیچڑ کی وجہ سے ألا صلوا في الرحال کے الفاظ حي على الصلاة کی جگہ یا اس کے بعد یا اذان سے فراغت کے بعد کہے جائیں؟اس کی تفصیل اور راجح موقف حدیث:632 کے تحت بیان ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت سلیمان بن صرد نے اپنی اذان کے دوران میں گفتگو کی، نیز امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ دوران اذان یا اقامت میں ہنسنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی اور عبدالحمید بن دینار صاحب الزیادی اور عاصم احول سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن حارث بصری سے، انھوں نے کہا کہ ابن عباس ؓ نے ایک دن ہم کو جمعہ کا خطبہ دیا۔ بارش کی وجہ سے اس دن اچھی خاصی کیچڑ ہو رہی تھی۔ مؤذن جب حي علی الصلوٰة پر پہنچا تو آپ نے اس سے الصلوٰة فی الرحال کہنے کے لیے فرمایا کہ لوگ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لیں۔ اس پر لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ اسی طرح مجھ سے جو افضل تھے، انھوں نے بھی کیا تھا اور اس میں شک نہیں کہ جمعہ واجب ہے۔
حدیث حاشیہ:
موسلادھاربارش ہورہی تھی کہ جمعہ کا وقت ہوگیا اورمؤذن نے اذان شروع کی جب وہ حی علی الصلوٰة پر پہنچا تو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اسے فوراً لقمہ دیا کہ یوں کہو الصلوٰة في الرحال یعنی لوگو اپنے اپنے ٹھکانوں پر نماز ادا کر لو۔ چونکہ لوگوں کے لیے یہ نئی بات تھی اس لیے ان کو تعجب ہوا۔ جس پر حضرت ابن عباس ؓ نے ان کو سمجھایا کہ میں نے ایسے موقع پر رسول کریم ﷺ کا یہی معمول دیکھا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایسے خاص موقع پر دوران اذان کلام کرنا درست ہے۔ اوراتفاقاً اگرکسی کو اذان کے وقت ہنسی آگئی تو اس سے بھی اذان میں خلل نہ ہوگا۔ یہ اتفاقی امور ہیں جن سے اسلام میں آسانی دکھانا مقصود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Al-Harith (RA): Once on a rainy muddy day, Ibn 'Abbas (RA) delivered a sermon in our presence and when the Mu'adhdhin pronounced the Adhan and said, "Haiya ala-s-sala(t) (come for the prayer)" Ibn 'Abbas (RA) ordered him to say 'Pray at your homes.' The people began to look at each other (surprisingly). Ibn 'Abbas (RA) said. "It was done by one who was much better than I (i.e. the Prophet (ﷺ) or his Mu'adhdhin), and it is a license.'