Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: To sleep with ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6368.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: جب تو بستر پر آنے کا ارادہ کرے تو وضو کر جیسے نماز کے لیے نماز وضو کرتا ہے پھر دائیں کروٹ پر لیٹ کر یہ دعا پڑھ: اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیری اطاعت میں دے دیا، اپنا سب کچھ تیرے سپرد کر دیا، اپنے معاملات تیرے حوالے کر دیے تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور تجھ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے۔ تیرے سوا کوئی پناہ گاہ یا نجات کی جگہ نہیں، میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی اور تیرے نبی کو تسلیم کیا جو تو نے مبعوث کیا۔ اس کے بعد اگر تو مرجائے تو دین اسلام پر مرے گا لہذا تم ان کلمات کو آخری بات بتاؤ جنہیں اپنی زبان سے ادا کرو۔ میں نے ان کلمات کو دہراتے وقت یوں کہہ دیا: ”میں تیرے اس رسول پر ایمان لایا جسے تو نے بھیجا۔“ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں (نہیں اس طرح کہو:) میں تیرے نبی ایمان لایا جسے تو نے مبعوث کیا۔“
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلقین کردہ الفاظ میں نبوت اور رسالت دونوں منصب جمع ہو جاتے ہیں جبکہ صحابی نے جن الفاظ کو دہرایا اس میں صرف رسالت کا منصب آتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہی الفاظ ادا کرو جو میں نے تعلیم دیے ہیں۔‘‘ (2) اس سے ثابت ہوا کہ ادعیہ ماثورہ اور اذکار مسنونہ میں اپنی طرف سے کمی بیشی کرنا درست نہیں بلکہ انہی الفاظ پر اکتفا کیا جائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں کیونکہ ان میں وہ خاصیت ہے جو دوسرے الفاظ میں نہیں، نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے رات کو با وضو سونے کی فضیلت بیان کی ہے۔ اس میں ان احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں اس فضیلت کی صراحت ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو آدمی رات باوضو ہو کر اللہ کا ذکر کرتے ہوئے سوتا ہے، پھر رات کو بیدار ہو کر اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا کرتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5042)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6084
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6311
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6311
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6311
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: جب تو بستر پر آنے کا ارادہ کرے تو وضو کر جیسے نماز کے لیے نماز وضو کرتا ہے پھر دائیں کروٹ پر لیٹ کر یہ دعا پڑھ: اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیری اطاعت میں دے دیا، اپنا سب کچھ تیرے سپرد کر دیا، اپنے معاملات تیرے حوالے کر دیے تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور تجھ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے۔ تیرے سوا کوئی پناہ گاہ یا نجات کی جگہ نہیں، میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی اور تیرے نبی کو تسلیم کیا جو تو نے مبعوث کیا۔ اس کے بعد اگر تو مرجائے تو دین اسلام پر مرے گا لہذا تم ان کلمات کو آخری بات بتاؤ جنہیں اپنی زبان سے ادا کرو۔ میں نے ان کلمات کو دہراتے وقت یوں کہہ دیا: ”میں تیرے اس رسول پر ایمان لایا جسے تو نے بھیجا۔“ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں (نہیں اس طرح کہو:) میں تیرے نبی ایمان لایا جسے تو نے مبعوث کیا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلقین کردہ الفاظ میں نبوت اور رسالت دونوں منصب جمع ہو جاتے ہیں جبکہ صحابی نے جن الفاظ کو دہرایا اس میں صرف رسالت کا منصب آتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہی الفاظ ادا کرو جو میں نے تعلیم دیے ہیں۔‘‘ (2) اس سے ثابت ہوا کہ ادعیہ ماثورہ اور اذکار مسنونہ میں اپنی طرف سے کمی بیشی کرنا درست نہیں بلکہ انہی الفاظ پر اکتفا کیا جائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں کیونکہ ان میں وہ خاصیت ہے جو دوسرے الفاظ میں نہیں، نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے رات کو با وضو سونے کی فضیلت بیان کی ہے۔ اس میں ان احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں اس فضیلت کی صراحت ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو آدمی رات باوضو ہو کر اللہ کا ذکر کرتے ہوئے سوتا ہے، پھر رات کو بیدار ہو کر اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا کرتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5042)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے منصور سے سنا، ان سے سعد بن عبیدہ نے بیان کیا کہ مجھ سے براء بن عازب ؓ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تو سونے لگے تو نماز کے وضو کی طرح وضو کر پھر دائیں کروٹ لیٹ جا اوریہ دعا پڑھ۔ ”اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیر ی اطاعت میں دے دیا۔ اپنا سب کچھ تیرے سپرد کر دیا۔ اپنے معاملات تیرے حوالے کر دیے۔ خوف کی وجہ سے اور تیری (رحمت وثواب کی) امید میں کوئی پناہ گاہ کوئی مخلص تیرے سوا نہیں میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے اور تیرے نبی پر جن کو تو نے بھیجا ہے“ اس کے بعد اگر تم مر گئے تو فطرت (دین اسلام پر مرو گے پس ان کلمات کو (رات کی) سب سے آخری بات بناؤ جنہیں تم اپنی زبان سے ادا کرو (حضرت براء بن عازب ؓ نے بیان کیا) میں نے عرض کی ''وَبِرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ'' کہنے میں کیا وجہ ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں «وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ» کہو۔
حدیث حاشیہ:
اس سے ثابت ہوا کہ اثر ماثورہ ادعیہ واذکار میں از خود کمی وبیشی کرنا درست نہیں ہے ان کو ہو بہو مطابق اصل ہی پڑھنا ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara bin 'Azib (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said to me, "When you want to go to bed, perform ablution as you do for prayer, then lie down on your right side and say: 'Allahumma aslamtu wajhi ilaika, wa fauwadtu Amri ilaika wa aljatu zahri ilaika, raghbatan wa rahbatan ilaika, lamalja'a wa la manja mink a ill a ilaika. Amantu bikitabi kalladhi anzalta wa bi nabiyyikal-ladhi arsalta'. If you should die then (after reciting this) you will die on the religion of Islam (i.e., as a Muslim); so let these words be the last you say (before going to bed)" While I was memorizing it, I said, "Wa birasiulikal-ladhi arsalta (in Your Apostle (ﷺ) whom You have sent).' The Prophet (ﷺ) said, "No, but say: Wa binabiyyi-kalladhi arsalta (in Your Prophet (ﷺ) whom You have sent)."