تشریح:
(1) زبان پر ہلکے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ آسانی سے ادا ہو جاتے ہیں۔ ان کا ترازو میں بھاری ہونا حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ آخرت میں میزان میں اعمال کو تولنے کے لیے انہیں جسم دیا جائے گا، اس میزان کے دو بڑے پاٹ اور ایک ڈنڈی کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے۔
(2) سبحان اللہ کی تکرار سے اللہ تعالیٰ کی مطلق تنريه اور پاکی مطلوب ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا کلام افضل ہے تو آپ نے فرمایا: ’’جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں یا خاص بندوں کے لیے منتخب فرمایا، وہ سبحان الله و بحمده ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث: 6925 (2731)) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس میں اشارہ فرشتوں کے درج ذیل قول کی طرف ہے: ’’اے اللہ! ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح بیان کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘ (البقرة: 30، و فتح الباري: 248/11) حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر پڑھنے کے لیے ان کے پاس سے تشریف لے گئے جبکہ وہ اپنی جائے نماز پر بیٹھی ہوئی تھیں، پھر آپ چاشت کے وقت ان کے پاس تشریف لائے تو وہ اسی جگہ بیٹھی تھیں، آپ نے فرمایا: ’’تم اسی حالت میں ہو جس حالت پر میں نے تمہیں چھوڑا تھا؟‘‘ انہوں نے کہا: جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے ہاں سے جانے کے بعد میں نے چار کلمے تین بار کہے ہیں اگر ان کا وزن تمہارے کہے ہوئے کلمات سے کیا جائے تو وہ ان پر بھاری ہوں گے، وہ یہ ہیں: (سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ، وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ)
’’پاک ہے اللہ تعالیٰ اپنی حمد کے ساتھ مخلوق کی تعداد، اپنے نفس کی رضا، اپنے عرش کے وزن اور اپنے کلمات کی سیاہی کے برابر۔‘‘ (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث: 6913 (2726)) اس حدیث کی مزید تشریح صحیح بخاری کی آخری حدیث کے فوائد میں بیان ہو گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ