تشریح:
(1) نعمت، وہ منفعت ہے جو کسی پر بطور احسان کی جاتی ہے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی اکثر و بیشتر قدر نہیں کی جاتی اور لوگ انہیں غلط استعمال کر کے خسارے میں رہتے ہیں۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صحت و فراغت دو ایسی چیزیں ہیں اگر انہیں مناسب طور پر استعمال نہ کیا جائے تو صحت مند اور فارغ انسان گھاٹے میں رہتا ہے کیونکہ جب انسان صحت و تندرستی کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرتا تو بیماری کے زمانے میں بطریق اولیٰ نہیں کرے گا۔ اسی طرح جب اسے فرصت کے لمحات میسر ہیں تو وہ انہیں کسی اچھے عمل کے بغیر یوں ہی گزار دے تو اس سے بڑھ کر خسارے میں رہنے والا دوسرا کون ہو سکتا ہے۔
(2) بعض اوقات انسان تندرست ہوتا ہے لیکن روزی کے اسباب میں مصروف رہنے کے باعث عبادت کے لیے فارغ نہیں ہوتا اور پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ روزی کے اسباب سے فارغ ہوتا ہے لیکن تندرستی کی نعمت سے محروم ہوتا ہے تو بیماری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو یاد نہیں کر پاتا۔ جب انسان صحت مند بھی ہو اور اسے فراغت بھی میسر ہو تو ایسے میں اگر فضائل و کمالات سے قاصر رہے تو مکمل طور پر خسارے میں رہتا ہے۔
(3) چونکہ دنیا، آخرت کی کھیتی اور اس کی تجارت ہے، اس بنا پر انسان کو چاہیے کہ وہ بدن کی صحت اور دنیا میں فراغت جیسی دونوں نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں لگائے اور آخرت کی کامیابی میں کوشاں رہے۔ واللہ المستعان